فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے دھرنے کے پیچھے کسی سازش کا امکان مسترد کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) انٹرسروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو کلین چٹ دے دی۔
اتوار کو فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی جانب سے 150 صفحات پر مشتمل مکمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دھرنے کے پیچھے نہ کسی سازش کا سراغ ملا نہ ہی کسی ادارے یا شخص کا ہاتھ تھا جبکہ فیض حمید تو صرف ثالث تھے۔
کمیشن کے مطابق آئی ایس آئی وفاقی حکومت کی ہدایات پر معاملہ حل کرنے سامنے آئی ، فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی اجازت سےثالث بنے جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال اور اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت کسی نے کسی ایجنسی یا شخص کا نام نہیں لیا ، دھرنے سے کسی ادارے کو نہیں جوڑ سکتے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نوازشریف اور مختلف لوگوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں ، معاملہ حساس تھا مگر قیادت نے جرات نہیں دکھائی ، مارچ کو پنجاب حکومت نے روکا ہی نہیں بلکہ سیکیورٹی دے کر فیض آباد تک پہنچایا اور یوں سارا دباؤ اسلام آباد انتظامیہ پر آ گیا ۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دھرنے کے شرکا کو آپریشن سے اٹھانے کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی والے احکامات کے سوا ہر بات کی ذمہ داری قبول کی ۔
کمیشن نےیہ بھی لکھا کہ دھرنے سے نمٹنے کیلئے جنہیں کمانڈر بنایا گیا انہوں نےآپریشن نہیں کیا ۔
انکوائری کمیشن نے فیض آباد دھرنا الیکشن ایکٹ کے ایک ڈیکلیریشن میں ترمیم کا نتیجہ قرار دیا اور وفاقی حکومت کی تشریح کرنے والے مصطفیٰ ایمپپکس کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے اختیارات واضح نہ ہونے کی نشاندہی کی اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سمیت 33 سفارشات پیش کی ہیں ۔
رپورٹ میں فیض حمید کے ایک چینل کی نشریات بحال کرنےکیلئے دباؤ ڈالنےکے ابصار عالم کے بیان کو ریکارڈ پر موجود مواد سے متضاد قرار دیا گیا ہے۔