تحریر: ہنزہ بلال
اڈولف ہٹلر کو دنیا میں فاشسٹ لیڈر کے طور پر مشہور ہے۔ یہ جرمنی کی سیاسی جماعت نازی کے سربراہ تھے اور پہلی بار انہیں شہرت اسی پارٹی کی وجہ سے ملی تھی۔ ہٹلر 1933 سے لے کر اپنی وفات تک جرمنی کا حکمران تھا، اس کو طاقت کا جنون سر چڑھ کے تھا۔ یکم ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کرکے اس نے جنگ عظیم دوئم کا آغاز کیا تھا اور بڑھ چڑھ کے تمام ملڑی آپریشن میں حصہ لیا۔
اڈولف ہٹلر جب اقتدار میں آیا تب جرمنی کی معیشت میں اضافہ ہوا اور معاشی استحکام کی وجہ سے عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔ ہٹلر نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ کہتے ہوئے کہ کمیونزم اور کیپٹلزم یہودیوں کی سازش ہے ان کے خلاف قتل عام شروع کردیا، جس کا مقصد یہودیوں کی نسل کشی کرنا تھا۔
اگر عمران خان کے دور حکومت کا اڈولف ہٹلر سے موازنہ کیا جائے تو ہمیں بہت سی ایسی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو دونوں میں مشترک ہیں۔ عمران خان اور اڈولف ہٹلر دونوں ہی فاشسٹ لیڈر ہیں۔ فاشسٹ کو اردو زبان میں فسطائیت کہتے ہیں جس کے معنی لکڑیوں کا گھٹا کے ہیں۔ اڈولف ہٹلر کی نازی جماعت کا انتخابی نشان بھی گھٹا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جہاں بھی یہودیوں کو دیکھوں اسی گھٹے سے مارو جبکہ عمران خان کی تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا ہے اور عمران اپنی انتخابی مہم میں یہ بات اکثر دہرا چکے ہیں کی ہم اپنے مخالفوں کو اسی بلے سے ماریں گے۔
ہٹلر کی تقاریر میں یہ بات دیکھنے کو ملے گی کہ جرمن قوم کے لیے میں ہی ان کا مسیحا ہوں اور میں ہی جرمنی کو ہر طرح کی مشکل سے نجات دلا سکتا ہوں، جرمنی کا واحد سہارا میں ہی ہوں۔ جبکہ یہی چیز عمران خان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو خود کو ہی پاکستان کا مسیحا سمجھتا ہے اور دوسری جماعتوں کو پاکستان کا دشمن سمجھتا ہے۔
ہٹلر بھی جرمن کو ایک عظیم قوم بنانے کے سہانے خواب دیکھاتا تھا، قومی عصبیت کو ابھارتا تھا، ملک سے غداروں کا سفایا کیا جائے اور دنیا میں جرمنی کو طاقت کی علامت بنایا جائے۔ اسی طرح عمران خان مذہب، قومیت پسندی، خود پسندی اور ذاتی انا کو فروغ دیتا ہے۔ یہ دونوں ہی ماضی کو مفروضہ بنا کر لوگوں کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔
ہٹلر نے تشدد، نفرت اور تعصب کو فروغ دیا، اقتدار میں آتے ہی ہٹلر نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نسل کشی کی اور ہمیشہ اشتعال انگیز بیانات سے لوگوں کو تشدد کی طرف اکسایا۔ اگر عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے تقاریر سنیں تو ان میں وہ سول بائیکاٹ، مخالفین سے انتقام، اپنے مخالف پارٹیوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور انہیں رلانے کی باتیں کرتے نظر آئیں گے۔ جبکہ اقتدار حاصل کرتے ہی عمران حکومت نے ملک کی ترقی کی بجائے انتقامی کاروائیوں پر زور دیا، کبھی وہ خاتون جج کو دھمکاتے نظر آتے اور کبھی ہزارہ واقع میں شہدا کی تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔ اقتدار کے چھن جانے کے بعد تشدد اور انتشار کی ہر حد پار کرتے دیکھائی دیتے ہیں جس کی ایک مثال سانحہ 9 مئی ہے۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے، اقتدار میں موجود، اور اقتدار کے چھن جانے کے بعد، ہر صورت میں انتشار، تشدد اور نفرت کی علامت ہے۔
ہٹلر کے پاس تقریر فن تھا وہ پروپگنڈا بہت بہترین کر لیتا تھا، وہ اپنی قوم سے جھوٹ اس قدر بولتا تھا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگ جاتے تھے۔ جوزف، ہٹلر کا پروپیگنڈا منسٹر تھا جو ہٹلر کو مختلف پروپیگنڈا طریقے بتاتا تھا۔ اسی طرح اگر عمران خان کو دیکھا جائے تو بذات خود بھی وہ ایک بہترین تقریر نگار ہیں وہ عوام میں پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ اور جھوٹ اس طرح بولتے ہیں کہ عوام کو ان کی باتیں سچ لگنے لگ جائیں، پھر چاہے وہ سائفر ہو، قتل کی سازش ہو، ملک میں بیرونی مداخلت ہو، فوج پر الزامات ہو سب اس کے منفی پروپیگنڈا کی علامتیں ہیں۔
ہٹلر کا ایک طریقہ واردات یہ بھی تھا کہ وہ کہتا تھا کہ جرمنی سے غداروں کا خاتمہ کرے گا، دولت اشرافیہ سے نکال کر عوام کی حکمرانی اور عوام کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ جبکہ عمران خان کا بیانیہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے وہ بھی یہی دعوی کرتے ہیں کہ ملک کی لوٹی ہوئی رقم پاکستان لائیں گے اور اس پیسے سے ملک کو خوشحال کریں گے۔ لیکن نہ ہی وہ لوٹی ہوئی رقم واپس آئی اور نہ ہی ملک خوشحال ہوا۔
ہٹلر کا ایک دعوی یہ بھی ہے کہ دشمن ہمارے ملک کو ذہنی غلام بنا کر تباہ و بربار کر دے گا، ملک سے اخلاقیات کو تباہ کردے گا، اور ہمارے لوگوں کو کند ذہن کردے گا۔ اسی سے ملتا جلتا بیانیہ عمران خان کا بھی ہے ان کی تقاریر میں یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا ہے، ہماری اخلاقیات تباہ ہو گئی ہیں ہم ذہنی غلامی میں ہیں، اور ہمیں اس ذہنی غلامی سے تجات کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔
قصہ المختصر فاشسٹ عمران خان اڈولف ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہا ہے لیکن عمران خان یہ بھول گیا ہے کہ وہ ہٹلر ہی تھا جس نے اپنی فسطائیت، انا، خودپرستی، اور طاقت کے جنون سے تنگ آکر خودکشی کی تھی۔ عمران نیازی اگر نازی کے نقش قدم پر چلتا ہے تو اس میں صرف اس کی تباہی کے سوا کوئی راہ نہیں ہے۔