افغان طالبان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں جنگ اور غربت کے باعث چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوگیا۔ اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بڑھ گئی۔ معاشی حالات کی وجہ سے بچے کام کرنے پر مجبور ہیں ۔
طالبان حکومت نے بچوں کی آزادی اور بچپن کو چھین کر ان کو اپنے حقوق کی تکمیل کے مواقع سے محروم کیا ہے ، حالیہ رمضان کے دوران کابل میں چائلڈ ورکرز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ، افغانستان میں لاتعداد بچے اینٹوں کی تیاری ، قالین کی بُنائی، تعمیرات ، کان کنی اور کھیتی باڑی کا کام کر رہےہیں ، سڑکوں پر بھیک مانگتے اور کچرا بھی جمع کرتے ہیں ۔
غیرملکی فلاعی تنظیم کےایک اہلکار نے ایک جریدے کو بتایا کہ افغانستان میں بیس لاکھ سے زائد افراد جن میں سے پچاس فیصد بچے ہیں کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے ۔ افغانستان میں سیفٹی چلڈرن کےکنٹری ڈائریکٹر ارشد ملک نے کہا محنت مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد میں تقریباً اڑتیس فیصد اضافہ ہوا۔
طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانی معیشت تباہ ہوئی ہے ، مزدور بچوں کا کہنا ہے کہ معاشی چیلنجز کی وجہ سےوہ ایسےخطرناک کام اور مزدوری کرنےپر مجبور ہیں ۔ ایک بچے نےبتایا گھر میں اس کی بہنیں بھوکی اور کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے ، اس لیے وہ مزدوری کرنےپر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کےبین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ نے دو ہزار تئیس کو افغانستان میں بچوں کے لیے تباہ کن سال قرار دیا تھا۔ امریکی محکمہ لیبر کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں وہ بچے جو لیبر فورس میں شامل ہیں جسمانی چوٹوں ، صحت کی خرابی ، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہیں۔
خواتین کی ملازمت پر طالبان کی پابندیوں نے بھی چائلڈ لیبر میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ایک غیر ملکی فلاحی تنظیم کے سروے کےمطابق کام کرنے والے بچوں کو اکثر منشیات کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ جسمانی اور جنسی استحصال کا بھی شکار ہوتے ہیں ، وسائل کی کمی کی وجہ سے افغان معیشت ناکام ہو گئی ہے اور بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔