کاشف شمیم صدیقی
کشمیر پاکستان، دو قالب ایک جان
سوچوں میں سبز ہلالی پرچم
نظروں میں حسُنِ جنت نظیر
میرے دل میں بسا ہےپاکستان
دھڑکنوں میں کشمیر
جب خونِ ناحق گرتا ہے وہاں
آنکھوں سے پانی، بہتا ہے یہاں
عجیب ربط ہے اُس زمیں سے سرزمینِ پاک کا
پہنچے جو چوٹ جسم پر کشمیریوں کو
ایک درد سا وجود میں، اُٹھتا ہے یہاں
ندائے حق گونجے کی فضاؤں میں
باطل سبھی تھرتھرا جائیں گے
طلوع صبح یوں ہو گی میرے کشمیر میں
اندھیرے ظلمتوں کے،چھٹتے چلے جائیں گے
کشمیر پاکستان، ہوتے ہیں کچھ یوں بیان
کہ وہ پھول ہے چمن کا
ہم گلشن کے ہیں رکھوالے
وہ کلی موسمِ بہار کی
ہم خوشبوؤں کے متوالے
وہ مانگنے دعائیں والے، وہاں سے
ہم یہاں سے آمین کہنے والے
وہ تیرگی میں جلتا چراغ جھلمل
ہم اُمید سحر کی، بن جانے والے
وہ آسماں کا ہے جگمگاتا ستارہ
ہم چاند کی چاندنی کہلانے والے
وہ جبرِمسلسل سے ہیں مسلسل نبردآزما
ہم تواتر سے حوصلے، بڑھانے والے
وہ نہ سمجھیں اپنے آپ کو تنہا کبھی بھی
ہم ساتھ ہر دم اُنکا، ہیں نبھانے والے