سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو عام انتخابات 2024 میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی صدر چوہدری پرویز الہٰی کے کاغذات نامزدگی مسترد کیئے جانے کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس کے دوران ان کے وکیل فیصل صدیقی عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ پرویز الہیٰ پر ایک پلاٹ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا، پھالیہ میں وہ پلاٹ لینے کی ایسی تاریخ ڈالی گئی جب پرویزالہیٰ جیل میں تھے، پرویزالہیٰ پہلی بارالیکشن نہیں لڑ رہے 2 بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔ انتخابات میں حصہ لینا بنیادی حق، کسی کو بنیادی حق سے محروم کرکے سزا دے رہے ہیں، سپریم کورٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ کی ایسی تشریح کرنی ہےجو عوام کو مرضی کے نمائندے منتخب کرنے سے محروم نہ کرے، پلاٹ کا اعتراض تب ہی بنتا تھا جب جج کا فیصلہ موجود ہو پلاٹ فلاں شخص کا ہے۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ابھی تک آر او کا مکمل آرڈر بھی نہیں ملا، ہر حلقے کیلئے الگ اکاؤنٹ نہ کھولنے کا اعتراض لگایا گیا، مؤکل پرویز الہیٰ 5 حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں کہاں ہے کہ 5 حلقوں کیلئے 5 الگ الگ اکاونٹس ہوں؟۔
وکیل نے بتایا کہ انتخابی مہم میں حد سے زائد خرچہ ہو تو الیکشن کے بعد اکاؤنٹس دیکھے جاتے ہیں، کاغذات نامزدگی وصول کرنے والے دن پولیس نے گھیراؤ کر رکھا تھا۔
جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ ان باتوں کو چھوڑیں اور قانون کی بات کریں جس پر وکیل نے کہا کہ ایک اعتراض یہ لگا کہ پنجاب میں 10 مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی، اعتراض کیا گیا کہ مؤکل نے 20 نومبر 2023ء کو پلاٹ خریدا، میرے موکل نے ایسا کوئی پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں ، وہ تو جیل میں تھے، دوسری بات یہ ہے کہ 30 جون تک کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو جیتنے سے پہلے اور بعد میں کتنے اثاثے تھے؟ آپ پلاٹ کی ملکیت سے ہی انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پرویزالہی پر لگے اعتراض کا تو بعد میں بھی ازالہ ممکن ہے جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت اگر وضاحت کر دے تو آئندہ ایسے بیوقوفانہ اعتراض نہ لگیں۔
جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ اعتراض لگانے والے تو کوئی اور طریقہ نکال لیں گے جبکہ وکیل نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر مؤکل،انکی اہلیہ اور بیٹے کی جائیدادیں ایک ہی وقت میں نکلیں، ریٹرننگ افسر نے ہمیں فیصلہ بھی نہیں دیا کہ کہیں چیلنج نہ کرلیں۔
جسٹس جمال نے مکالمہ کیا کہ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اچانک اضافی جائیداد نکل آئی، آپ یہ اضافی جائیداد کسی فلاحی ادارے کو دے دیں جس پر وکیل نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں حکومت کو جائیداد پر اعتراض ہے تو خود رکھ لے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ حیرت انگیز ہے کہ صرف ایک جماعت کے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے، انتخابات کو اتنا مشکل مت بنائیں، ریٹرننگ افسر کا کام رکاوٹیں کھڑی کرنا نہیں ہوتا۔
پرویز الہٰی کے مخالف فریق کے وکیل حافظ احسان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2018ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ اس فیصلے کا حوالہ نہ دیں جس میں سپریم کورٹ نے بیان حلفی خود بنا دیا تھا جبکہ جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات کی اسکروٹنی کے وقت صرف ارسلان سرور موجود تھے۔
وکیل نے کہا کہ اسکروٹنی کے وقت پرویز الہیٰ کے تمام وکلاء کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے پرویز الہیٰ کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے لئے اہل قرار دے دیا۔
واضح رہے کہ چوہدری پرویز الہٰی پی پی 32 کے علاوہ دیگر تمام نشستوں سے دستبردار ہوگئے ہیں۔