سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ اب تک ہمارے اچھے مذاکرات کے ادوار گزرے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے قریب آتے جا رہے ہیں مگر ہمارے لیے مسئلہ فلسطین بہت اہم ہے، ہمیں امید ہے ایک دن فلسطین کا مسئلہ حل ہوگا اور فلسطینیوں کی زندگی آسان ہوگی۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات معطل ہو چکے ہیں تو انہوں نے کہا کہ’ نہیں، یہ سچ نہیں ہے۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ اگر ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرتا ہے تو ہمیں بھی اسے رکھنے کی ضرورت ہوگی، سعودی عرب کو کسی بھی ملک کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے یا استعمال کرنے پر تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا ایک نئے ہیروشیما کو برداشت نہیں کرسکتی، اگر آپ ایٹمی ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو آپ کو باقی دنیا سےبھی لڑائی لڑنا پڑے گی، جوہری ہتھیار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں،انہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ولی عہد نے کہا ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کےلیے مارچ میں چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے بعد سے تہران کے ساتھ تعلقات اچھی طرح آگے بڑھ رہے ہیں اور امید ہے خطے کی سلامتی اور استحکام کے فائدے کے لیے ایسا کرتے رہیں گے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن امریکہ سمیت سعودی عرب کا بھی دشمن تھا، اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ نے سعودی عرب کو بھی نقصان پہنچایا۔
سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہمارے بہت سے مسائل تھے مگر اب ہم بڑے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری ترجیح معیشت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے، ہم جلد ہی دنیا کی مضبوط ترین معیشت کے طور پر دنیا میں کھڑے ہونگے۔
ان کا کہنا تھا ’اوپیک کا تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ مارکیٹ کے استحکام پر مبنی ہے اور اس کا مقصد روس کو یوکرین میں اپنی جنگ لڑنے میں مدد کرنا نہیں تھا۔
ہم صرف رسد اور طلب پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر رسد کی کمی ہے تو اوپیک پلس میں ہمارا کردار اس کمی کو پراکرنا ہے۔ اگر ضرورت سے زیادہ سپلائی ہوتی ہے تو اوپیک پلس میں کردار مارکیٹ کے استحکام کےلیے اقدامات کیے جائیں۔