ٓآرمی چیف جنرل عاصم منیر نے یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کی سیاست کا محور طاقت ہے۔ جو حکومت میں ہے وہ حکومت چھوڑنا نہیں چاہتا اور حکومت سے باہر بیٹھے سیاسی عناصر جلد از جلد اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو مزید واضح کرتے ہوئے آرمی چیف نے شرکاء کو متنبہ کیا کہ ان منفی اثرات سے بچاو ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ من گھڑت پروپیگنڈے کرنے کا مقصد مایوسی پھیلانا ہے۔ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ اس مایوسی کو نظر انداز کر کے اپنی خود اعتمادی پر بھر وسہ کریں۔
آرمی چیف نے جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں یوتھ کنونشن سے ایک انتہائی مُدلل اور اہم خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران کنونشن سنٹر میں موجود شرکاء نے بہت سارے اہم سوالات اٹھائے۔
آرمی چیف نے پاکستان بننے کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ پاکستان کی بنیاد برصغیر کے مسلمانوں کی مجموعی سوچ کی عکاس تھی۔ بر صغیر کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ مذہب اور اسلامی تہذیب و تمدن ہندووں سے یکسر مختلف ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے دونوں قومیتوں کا ساتھ رہنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آج کا نوجوان ہندو تسلط سے چھٹکارا پانے کے بعد مغربی تہذیب کی طرف راغب ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جب اللہ تعالی نے ہمارے دین کو دین کامل قرار دے دیا تو ہمیں اپنے دین اور اس کی تعلیمات پر پورا یقین ہونا چاہیے یہ یقین ہماری خود اعتمادی کا محور ہے۔
آرمی چیف نے سوشل میڈیا پربڑھتے ہوئے پروپیگنڈے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمارا مذہب ہمیں کسی بھی بات پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کا حکم دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے بارے میں پھیلایا جانے والا جھوٹا پروپیگنڈا ہمارے ملک کو میسر اللہ تعالی کی نعمتوں سے روح گردانی ہے۔ ہمیں اپنے ملک ، اس کی افرادی قوت اور اس میں موجود قدرتی وسائل اور سب سے بڑھ کر اپنی قومی شناخت پر اعتماد اور فخرہونا چاہیے۔
ایران کے ساتھ حالیہ تنائو کے دوران افواج پاکستان کے ردعمل کو شرکاء نے کھلے دل سے سراہا۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس پر اظہارِخیال کرتے ہوئے اس سارے بحران کے دوران آرمی چیف کے کردار کو مرکزی حیثیت کا حامل قرار دیا۔
دوران کنونشن شرکاء کی جانب سے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کا ذکر ہوا جس پر آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ جب ہماری عوام دور عمر ؓ کی خوبیوں کی حامل ہوگی تو ان کے حکمران بھی حضرت عمر ؓ کی طرز حکمرانی کر سکیں گے۔ آرمی چیف نے مزید یہ بھی کہا کہ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کی سیاست کا محور طاقت ہے۔ جو حکومت میں ہے وہ حکومت چھوڑنا نہیں چاہتا اور حکومت سے باہر بیٹھے سیاسی عناصر جلد از جلد اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اداروں میں موجود سب لوگ اچھے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان پارٹیوں اور اداروں کے افراد اسی معاشرے کی پیداوار ہیں اورافراد کا ان اچھائیوں اور برائیوں سے اثر لینا ایک فطری عمل ہے۔ اس ملک کی بہتری کے لیے میں نے اور آپ نے اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے۔
سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو مزید واضح کرتے ہوئے آرمی چیف نے شرکاء کو متنبہ کیا کہ ان منفی اثرات سے بچاو ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ من گھڑت پروپیگنڈے کرنے کا مقصد مایوسی پھیلانا ہے۔ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ اس مایوسی کو نظر انداز کر کے اپنی خود اعتمادی پر بھر وسہ کریں۔ ملک میں سیاسی استحکام کے فقدان کے بارے میں اٹھائے جانیوانے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے پارلیمان کی پانچ سالہ مدت کی اہمیت پر زور دیا ۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام پانچ سال کے لیے پارلیمان کو منتخب کرتی ہے اور اس دوران ایک جمہوری طریقے سے اگر حکومت یا اس کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو اسے سیاسی عدم استحکام سے تشبیہ دینا یقیناً ایک منفی پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ اس زمن میں انہوں نے Mother of Democracy برطانیہ اور پڑوسی ملک ہندوستان کی مثالیں دیں جہاں پارلیمان کے پانچ سال کی مدت کے دوران متعدد دفعہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔
شرکاء کی طرف سے نگران حکومت کے تین ماہ سے زائد عرصے کی حکمرانی پر سوالات اٹھائے گئےجس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ کوئی بھی نگران حکومت انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت کو ذمہ داری تفویض کیے بغیر نہیں جاسکتی۔ انتخابات میں ہونے والی تاخیر بھی آئینی تقاضوں یعنی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے ہوئی اور بعد ازاں انتخابات کی تاریخ کا تعین عدالتی سکروٹنی کے بعد کیا گیا۔ جیسے ہی انتخابات کا عمل مکمل ہوا نگران حکومت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے گی۔
گلگت بلتستان کے حقوق کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ہم سب کی شناخت پاکستان ہے۔جو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ گلگت بلتستان والوں کے پاس ہے وہی میرے پاس بھی ہے اور یہی شناخت ہمیں متحد رکھے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے کے اثرات سے بچتے ہوئے تمام منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کریں۔