بین الاقوامی عدالتِ انصاف اس ہفتے جنوبی افریقا کی طرف سے دائرکردہ ایک مقدمے کی سماعت کرے گی جس میں غزہ جنگ میں اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے اور اس کی فوجی مہم کی ہنگامی معطلی کی درخواست کی گئی ہے۔
اسرائیل کے 7 اکتوبر کے بعد غزہ پر ظالمانہ حملوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً 23 ہزار فلسطینی شہید اور 60 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔
جنوبی افریقا کا مقدمہ کیا ہے؟
جنوبی افریقا نے 84 صفحات پر مشتمل اپنی درخواست میں کہا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو ہلاک کر کے انہیں شدید ذہنی و جسمانی نقصان پہنچا کر اور زندگی میں "انہیں جسمانی طور پر تباہ کر دینے والے" حالات پیدا کرکے اسرائیل ان کیخلاف نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے "یہ افعال تمام تر اسرائیل سے منسوب ہیں جو نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور نسل کشی کے کنونشن کی واضح خلاف ورزی کرکے نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، اسرائیل کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے عہدیداروں میں نسل کشی کی ترغیب کو بھی روکنے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیل کا جواب
اسرائیل نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور ایک حکومتی ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ جنوبی افریقا یہودیوں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا رہا ہے، جس کا مقصد یہودیوں سے مہلک نفرت پیدا کرنا ہے۔
اسرائیل نے کہا کہ وہ اپنا مقدمہ پیش کرنے کیلئے اگلے ہفتے عدالت میں ہوگا۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کیا ہے؟
آئی سی جے جسے ورلڈ کورٹ (عالمی عدالت) بھی کہا جاتا ہے، اقوامِ متحدہ کا سب سے بڑا قانونی ادارہ ہے جو 1945ء میں ریاستوں کے مابین تنازعات سے نمٹنے کیلئے قائم کیا گیا تھا، اس کو معاہدے پر مبنی بین الاقوامی فوجداری عدالت سے گڈمڈ نہیں کرنا چاہئے جو افراد کیخلاف جنگی جرائم کے مقدمات سے نمٹتی ہے اور یہ بھی ہیگ میں ہے۔
آئی سی جے کا 15 ججوں کا پینل جس میں اسرائیل کے معاملے میں ہر فریق کیلئے ایک اضافی جج بڑھا دیا جائے گا، سرحدی تنازعات اور ریاستوں کے ذریعہ لائے جانیوالے مقدمات سنتا ہے، جن میں دوسروں پر اقوامِ متحدہ کے معاہدے کی ذمہ داریوں کو توڑنے کا الزام ہو۔
جنوبی افریقا اور اسرائیل دونوں 1948ء کے نسل کشی کے کنونشن کے دستخط کنندہ ہیں جو آئی سی جے کو معاہدے پر تنازعات کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
نسل کشی کے کنونشن پر دستخط کرنیوالی تمام ریاستیں ناصرف نسل کشی کا ارتکاب نہ کرنے بلکہ اسے روکنے اور اس پر سزا دینے کیلئے بھی پابند ہیں۔ اس معاہدے نے نسل کشی کی وضاحت "مکمل یا جزوی طور پر قومی، فرقہ وارانہ، نسلی یا مذہبی گروہ کو تباہ کرنے کے ارادے سے کئے گئے اقدامات" کے طور پر کی ہے۔
سماعتوں میں کیا ہوگا؟
یہ سماعت 11 اور 12 جنوری کو ہوگی۔
کسی ایسے مقدمے میں ہنگامی اقدامات کی درخواست پہلا قدم ہے جسے مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ عارضی اقدامات کا مطلب ایک قسم کا روک تھام کا حکم ہوگا تاکہ کسی تنازعہ کو خراب ہونے سے بچایا جاسکے جبکہ عدالت اس دوران پورے معاملے پر نظر ڈالتی ہے۔
آئی سی جے کے جج اکثر ایسے اقدامات کی اجازت دے دیتے ہیں جو عموماً ایسا حکم صادر کرتے ہیں کہ ایک ریاست ایسی کارروائی سے باز رہے جو قانونی تنازعہ کو بڑھائے۔ عارضی اقدامات کیلئے عدالت کو صرف یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آیا بادی النظر میں یہ اس کے دائرۂ اختیار میں ہو اور شکایت کردہ افعال نسل کشی کے معاہدے کے دائرۂ کار میں آتے ہوں، ضروری نہیں کہ عدالت کے دیئے گئے کوئی بھی احکامات کی شکایت کنندہ نے درخواست کی ہو۔
جنوبی افریقا نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی کارروائیاں معطل کرنے کا حکم دے تاکہ نسل کشی کی کارروائیاں بند ہوں یا وہ نسل کشی روکنے کیلئے معقول اقدامات کرے اور اس طرح کے اقدامات کے بارے میں آئی سی جے کو باقاعدہ رپورٹس جاری کرے۔
آئی سی جے کے احکامات حتمی اور اپیل کے بغیر ہیں لیکن اس کے پاس ان کے نفاذ کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اسرائیل کیخلاف فیصلے سے اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور قانونی نظیر قائم ہوسکتی ہے۔
حتمی فیصلہ آنے میں کتنا وقت صرف ہوگا؟
اگر عدالت کو پتہ چلے کہ اس کا بادی النظر کا دائرہ اختیار ہے تو معاملہ ہیگ میں واقع زیبائشی پیس پیلس میں آگے بڑھے گا، چاہے جج ہنگامی اقدامات کے خلاف ہی فیصلہ کریں۔
اس کے بعد اسرائیل کو یہ بحث کرنے کا ایک اور موقع ملے گا کہ عدالت کے پاس جنوبی افریقا کے دعوے کو دیکھنے اور ابتدائی اعتراض دائر کرنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، جو صرف دائرہ اختیار کے امور کیلئے کام کر سکتی ہے۔ اگر عدالت اس اعتراض کو مسترد کرتی ہے تو جج بالآخر مزید عوامی سماعتوں میں اس کیس کو دیکھ سکتے ہیں۔
ابتدائی دعوے اور اس کی خوبیوں کی بنیاد پر کیس کی اصل سماعت کے درمیان کئی سال گزر جانا غیرمعمولی بات نہیں ہے۔