سپریم کورٹ آف پاکستان نے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں الیکشن کمیشن اور چیف سیکرٹری کی رپورٹ پر جواب دینے کےلیے وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ کی 3 دن کی مہلت دینے کی استدعا منظور کرلی جبکہ بلے کے نشان کا کیس 10 جنوری کو مقرر کرنے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں تحریک انصاف کے وکیل لطیف کھوسہ نے الیکشن کمیشن اور چیف سیکرٹری کی رپورٹ پر جواب کیلئے مہلت مانگی، لطیف کھوسہ کی 3 دن کی مہلت دینے کی استدعا منظور کی جاتی ہے۔ عدالت نے لیول پلیئنگ فیلڈ توہین عدالت کیس آئندہ پیر تک ملتوی کردیا۔
الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کرائے؟ چیف جسٹس
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے ہمارے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں، مجھے تین دن کا وقت دے دیں، میں اس پر جواب دوں گا، ساری دنیا دیکھ رہی ہے ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی اور سنی بھی جا رہی ہیں، ہمارے سامنے کچھ تحریری طور پر لائیں گے تو ہی دیکھیں گے، ساری دنیا دیکھ رہی ہے میں نہیں دیکھ رہا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہم آر اوز کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی کے کاغذات مسترد نہ کریں، الیکشن کمیشن کا ایم پی اوز سے کیا تعلق ہے؟ الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کرائے؟
پی ٹی آئی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر جو کہ ڈی سی ہیں وہی ایم پی او جاری کررہے ہیں، روزانہ ہمارے خلاف آرڈرز ہو رہے ہیں،کیا ہم الیکشن نہ لڑیں صرف مقدمے بھگتیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت سے سوالات نہ کریں۔
لطیف کھوسہ کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی سزا معطلی کیس کا حوالہ دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کیس ہمارے سامنے ہے صرف اس کی بات کریں۔ لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ آپ کی عدالت کے باہر سے میرے منشی کو اٹھا لیا گیا، چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ یہ منشی کیا ہوتا ہے؟ یہاں منشی کا کوئی تصور نہیں۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اس پر شکایت درج کروا رکھی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے پاس کوئی شکایت نہیں آئی، شکایت اگر کسی منشی کے بارے میں ہے تو پڑھوں گا بھی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ معاملہ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق کے نوٹس میں لائے تھے، چیف جسٹس نے وکیل کو کہا کہ جو ہمارے کولیگ یہاں نہیں ہیں ان کی بات نہ کریں، میرے سامنے میرے آنے کے بعد کی بات کریں، سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کاتصور ہے، یہ جو منشی چیمبرز میں گھس رہے ہیں یہ غلط ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یا تو کہیں الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اس کو بند کردیں، کیا ہم الیکشن کمیشن کے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لیں؟ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کو الیکشن چاہئیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل 100 فیصد ہمیں الیکشن چاہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے، یہ آپ کے بنائے ہوئے ادارے ہی ہیں، پارلیمان نے ہی بنائے ہیں یہ ادارے، ان اداروں کی قدر کریں، اگر ان کے بیان کئے گئے حقائق غلط ہیں تو تردید کریں۔
وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے لوگوں کو باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کس پارٹی سے امیدوار ہیں؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی سے امیدوار ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ خود بھی تو امیدوار ہیں اور ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔
آپ صرف چاہتے ہیں الیکشن میں تاخیر ہو،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں جو سمجھ آیا کہ آپ صرف چاہتے ہیں الیکشن میں تاخیر ہو، ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات ہوں، آپ بتائیں کہ کیا آرڈر جاری کریں؟ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم آگ کے دریا سے گزر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب میں آپ کو روکوں گا، یہ کورٹ آف لاء ہے ، آگ کے دریا جیسے جملے یہاں نہ بولیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن سیل کے پاس امیدواروں کے اعداد و شمار کیوں نہیں؟ الیکشن کمیشن کے مطابق 76 فیصد سے زائد پی ٹی آئی کے کاغذات منظور ہوئے، رپورٹ کے مطابق تو زیادہ تر کاغذات نامزدگی منظور ہی ہوئے ہیں۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے کسی فرنٹ لائن امیدوار کے کاغذات منظور نہیں ہوئے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اپنے جواب میں آپ خود کہہ رہے ہیں ٹریبونلز نے ریلیف دیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہو جائیں؟ جو چاہتے ہیں وہ بتا دیں،یہ قانون کی عدالت ہے تقریر سے نہیں چل سکتی۔
چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نےدرخواست کےجواب میں جمع رپورٹ پڑھی؟ کوئی تقریر نہیں صرف بتائیں اس رپورٹ میں کیا غلط ہے؟ آپ ان رپورٹس کو جھٹلا رہے ہیں تو جواب میں تحریری طور پر کچھ لانا ہو گا۔
عدالت کے سامنے دکھڑے نا روئیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا حکم چاہتے ہیں؟ عدالت کو بتائیں تاکہ وہ کردیں، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کے سامنے دکھڑے نا روئیں، اگر آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں تو کیا کریں؟ کھوسہ صاحبیہ کوئی سیاسی فورم نہیں ہے، اور بہت سے سیاسی فورم ہیں، وہ استعمال کریں۔
پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا پلان ہے،لطیف کھوسہ
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یہ کاغذات نامزدگی چھیننے کا کیا معاملہ ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے ہمارا نہیں، کاغذات چھینے جارہے ہوں یا جو بھی ہورہا وہ الیکشن کمیشن نے دیکھنا ہے، ہم نے واضح کیا تھا کہ انتحابات کی تاریخ صدر اور الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق معاملات عدالت کیوں سنے؟ ہمارے سامنے کچھ دائر ہوگا تو ہم اسے دیکھیں گے، اگر ساری دنیا دیکھ رہی اور ہمیں بھی دیکھنا چاہئے تو یہ بات غلط ہے، کوئی درخواست آئے گی، شکایت آئے گی تو ہی ہم سنیں گے۔
تحریک انصاف کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا پلان ہے،بانی پر فرد جرم عائد کر دی گئی،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں،ہمارے سامنے اس وقت ان کی کوئی درخواست نہیں۔
بلے کے نشان کا کیس 10 جنوری کو مقرر کرنے کا حکم
دوران سماعت تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین نے بلے کے نشان والی درخواست لگانے کی استدعا کر دی، شعیب شاہین نے کہا کہ آج ہی کسی بھی وقت ہماری درخواست لگا دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ ہے، ہم کل آپ کو سن لیں؟ شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ کل پشاور ہائیکورٹ یہی کیس لگا ہوا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ (کیس پشاور ہائیکورٹ میں لگا ہوا ہے) تو کیا ہوا؟ حامد خان صاحب کہاں ہیں؟ حامد خان صاحب یہاں آنے کی زحمت بھی نہیں کررہے، چیف جسٹس پوچھ رہا ہے، کہاں ہیں آئیں سن لیتے ہیں، بعد میں باہر جاکر کہیں گے ہماری درخواست سنی نہیں جارہی۔
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان بعدازاں عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی درخواست کل مقرر کردیں؟ آج 9 ممبر بینچ بھی ہے اور ایک خصوصی بنچ بھی، حامد خان نے کہا کہ ہماری ترجیح آج ہے، نہیں تو پھر پرسوں کے لئے مقرر کردیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ فیصلے کے خلاف آئے یا 184 تین کی درخواست ہے؟ حامد خان نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف 185 تین میں سپریم کورٹ آئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس پھر معاملہ ججز کمیٹی کے پاس نہیں جانا تو پرسوں کیس مقرر ہوگیا، سپریم کورٹ نے بلے کے نشان والا کیس بدھ کے روز سننے کا فیصلہ کرلیا۔