اسلام آباد ہائیکورٹ نے مینٹینس آف پبلک آرڈر ( ایم پی او ) کے تحت نظر بندی کیخلاف درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا اختیار خلاف قانون قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے 82 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس کے مطابق ایم پی او آرڈر جاری کرنے کا ڈپٹی کمشنر ( ڈی سی ) اسلام آباد کا اختیار خلاف قانون اور اختیارات سے تجاوز قرار دیا گیا ہے۔
عدالت عالیہ نے 1992 کا چیف کمشنر کا ڈی سی کو اختیارات تفویض کرنے کا نوٹیفکیشن بھی خلاف قانون قرار دے دیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کے پاس اسلام آباد کے حوالے سے انفرادی اختیارات ہیں، اسلام آباد کیلئے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں وفاقی حکومت ہی ہے، اسلام آباد میں کوئی بھی فیصلہ وفاقی کابینہ کے مشورے سے ہی ہوسکتا ہے، آئین کے تحت اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے ، کسی صوبے کا حصہ نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 1980ء کا صدارتی آرڈر نمبر 18 ضیاء الحق کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، وفاقی حکومت صوبائی اختیارات کے استعمال سے متعلق رولز 3 ماہ میں تشکیل دے، وفاقی حکومت ہی اسلام آباد کی حد تک صوبائی حکومت بھی ہے چیف کمشنر نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ایم پی او کے تحت حراست غیر قانونی کیونکہ جُرم ہونے پر قانون کو حرکت میں آنا ہے، قبل از وقت حراست کا قانون بنایا جا سکتا ہے نا ہی حفاظتی حراست، یہ اختیار موجودہ ایکٹ کے ہونے سے پہلے استعمال کیا جاسکتا تھا۔
فیصلے کے مطابق ڈی سی اسلام آباد نے بطور مجسٹریٹ مئی سے ستمبر تک 67 ایم پی او جاری کئے جن میں سے اکثریت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی قیادت یا کارکنان کے خلاف تھی، پی ٹی آئی قیادت کا الزام تھا کہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ٹارگٹ کیا جارہا ہے، جتنے بھی ایم پی او چیلنج ہوئے وہ کالعدم ہوئے ، واپس لئے یا غیرموثر ہو گئے، ایک بھی ایم پی او ایسا نہیں تھا جو قانونی عمل کے بعد جاری کیا گیا ہو۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مئی سے زیرحراست سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی کے خلاف ستمبر میں دوسرا ایم پی او ہوا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بار بار موقع دیا لیکن وہ کوئی شواہد پیش نہیں کرسکے، موجود ریکارڈ کے مطابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے آئین و قانون کے ساتھ فراڈ کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جس طرح اختیار استعمال کیا وہ بدنیتی کے زمرے میں بھی آتا ہے، مزید آبزرویشن نہیں دے رہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر کے خلاف توہین عدالت زیر التوا ہے۔
فیصلے کے مطابق فئیر ٹرائل کا تقاضا یہی ہے ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے عدالت کوئی آبزرویشن نہ دے۔