37 سالہ ایڈووکیٹ ثناور بالم ضلع سرگودھا کے رہایشی ہیں۔ انہوں نے آئی ٹی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بطور ویب ڈئزانر کیا۔ تاہم سماجی طور پر متحرک ثناور نے وکالت میں ڈگری کرنے کے بعد انہوں نے وکالت کو پیشے کے طور پر انتخاب کیا۔اور وہ وکالت کی اپنی ڈگری کو کمزور لوگوں کے لیے قانونی مدد اور انصاف فراہم کرنے کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔ وکالت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی کمیونٹی میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنی مسلسل جدو جہد کو بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ثناور بالم سرگودھا کے ایک پسماندہ اور مزدورطبقہ آبادی میں جوان ہوئے جہاں رہتے ہوئے انہوں نے کمزور طبقوں کے مسائل کواپنے احساس کی انتہائوں تک اُترتے دیکھا۔
ثناور کا کہنا ہے کہ جس ماحول میں میری پرورش ہوئی، میں نے وہاں اپنے لوگوں کو کسم پروسی کی زندگی گزارتے دیکھا ہے ۔زندگی میں بڑی گہری بے چینی محسوس کی ، خود کو بے بس پایا اور اس بے چینی اور بے بسی کو اپنے لا شعورمیں چھپا لیا تھا ۔ یہاں میں آپ کے ساتھ ایک بات ضرور شئیر کروں گا کہ ’لا آف اٹریکشن‘ کا اصول ہے کہ زندگی آپ کو سچائی کے اُسی مقام تک لے جاتی جو سچ آپ کے اندر ہو ' اور میرے ساتھ یہی ہواہے ۔
ثناور بالم کی اب تک کی اپنی کرسچین کمیونٹی کے حوالے سے جاری جہدوجہد کی بات کریں تو ان کی شخصیت کی پہچان ایک انسانی حقوق کا کارکن ، وکیل، یوتھ لیڈر، موٹیوشنل سپیکر، فروغ ِتعلیم کے مُبلغ اور پسمائندہ طبقات کے حقوق لیے ایک ہمدرد اور مضبوط آواز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ثناور کا نظریہ ہے کہ کمزور طبقو ں کی ترقی کے لئے تعلیم کا فروغ، باعزت روزگار کا حصول اوریوتھ لیڈر شپ کو تحریک دے کر کمیونٹی کو منظم کیا جا سکتا ہے تا کہ کمیونٹی اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مسائل کا حل نکال سکے ۔
بطور ویب ڈئزانر کام کرتے ہوئے جب انہوں نے اپنی پروفیشنل لائف کا آغاز کیا، تو انہیں انسانی حقوق اور فلاح وترقی کے اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔یہ وہ وقت تھا جب ثناور نے اپنے لاشعور میں اپنی مسیحی کمیونٹی کے درد کو چھپا رکھاتھا،تب انسانی ہمدری اور فلاح و ترقی کے احساسات جاگ اُٹھے جو ان کے اندر دبے ہوئے تھے ۔
مسیحی کمیونٹی کے طلباء کے لئے سکالرشپ مہم کا آغاز کیا
انہوں نے ان اداروں کے ساتھ رضارکارانہ طور پر کام کرنا شروع کردیا ۔ابتداءمیں انہوں نے انسانی حقوق ،لیڈرشپ اور کمیونٹی کی ترقی کے تصورات اور نظام کو پیشہ وارانہ طور پر سیکھا اور اُس کے بعد ان تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی مہارتوں میں اضافہ کیا ۔
ثناور نے سماجی اداروں کے ساتھ کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ اقدامات کرنے شروع کئے ۔ جیسا کہ حال ہی میں سب سے پہلے اقلیتی طلباءکے لئے تعلیمی وظائف کی فراہمی پر کام شروع کیا ۔ جس میں صوبائی و وفاقی سرکاری اداروں کی جانب سے جاری کئے جانے والے تعلیمی وظائف کی تشہیری مہم اور طلباءکی راہنمائی اور سہولت کاری کرنا شروع کی ۔
ثناور بالم کی ان کوششوں سے ضلع سرگودھا میں اب تک سینکڑوں طلباءسکالر شپ کی سہولت حاصل کر چکے ہیں ۔ ان کی کاوشوں سے متاثر ہو کر دیگر ضلعوں کے کرسچین کمیونٹی کے سماجی کارکنان نے بھی اس مہم کواپنے اضلاع میں شروع کر رکھا ہے ۔
ثناور کا کہنا ہے کہ اقلیتی افراد میں تعلیم کے فروغ پر کام کرنے کے نتیجہ میں رشین آرتھوڈوکس چرچ نے متاثر ہو کر انہیں پاکستانی اقلیتی طلباء کے لئے انٹرنیشنل مفت سکالرشپ کی پیش کش کی جس کے نتیجہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئےاس وقت 11 طلباء روس کی مختلف یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
کیا سرکاری نوکریوں میں ہمارا حق نہیں ؟
ثناور کا دوسرا اقدام یہ ہے کہ روزگار کے لئے سرکاری آسامیوں پر خواتین اور اقلیتوں کے لئےمختص 5فیصد کوٹہ کی عملداری پر کام کرنا۔ سرکاری اداروں کی جانب سے جاری شُدہ آسامیوں کے اشتہار کا جائزہ لینا، اشتہار پر کوٹہ درج نہ ہونے پر متعلقہ اداروں سے رجوع کر کے اشتہار کی تصحیح کروانا ، آسامیوں پر درخواست دینے کے لئے اشتہاری مہم کا انعقاد کرنا ، فائل بنانا اور جمع کروانے کے لئے راہنمائی اور سہولت کاری کی خدمات پیش کرنا اور انٹرویو کے لئے تیار کروانا۔ ثناور کی ان کوششوں سے اب تک درجنوں افراد سرکاری نوکریاں حاصل کر چکے ہیں ۔
ثناور کا کہنا ہے کہ میں سرکاری نوکری کے خواہشمند نوجوانوں کو باقاعدہ ایک اکیڈمی طرز کی ٹرینگ کرواتا ہوں جس سے سرکاری نوکری کے متعلق امتحانوں اور انٹرویوز کی تربیت دی جاتی ہے۔
حکومت کے بڑے عہدوں پر اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کی۔ انہوں نے اقلیتی بڑھے لکھے طلبا ءکو متحرک کیا کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان دینے کے لئے تیار ی کریں تا کہ اقلیتی کمیونٹی میں آفیسر کی سطح کے افراد میں اضافہ ہو سکے ۔ اس کے لئے انہوں نے پہلے سی ایس ایس طلباء کا ایک گروپ تشکیل دیا اُس کے بعد اُن طلباء کو نے پڑھانے کے لئے اُستاد کا بندوبست کیا ۔ بعد ازں اس طریقہ سے متاثر ہو کر کاتھولک چرچ سرگودھا نے اس کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری اُٹھالی تاہم ثناور کا نام قابل تحسین ہے کہ اس سلسلہ کا آغاز انہوں نے کیا تھا ۔
سماجی سرگرمیوں میں نوجوانوں کو شامل کرنا
ان کاوشوں کے سلسلے میں ثناور کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا ادارک ہواکہ اگرچہ وہ معاشرے میں سماجی خدمات پیش کر رہے ہیں جس پر لوگ اُن کو سراہتے بھی ہیں تا ہم یہ کوششیں محدود ہیں ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کو منظم اور متحرک کر کے اپنے مقصد میں شامل کیا ۔ان کا نیا ایجنڈا ہے کہ سرگودھا کے مختلف علاقوں میں یوتھ گروپس تشکیل دے کر اپنے کام کی وسعت اور استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ ثناور کی اس حکمت عملی سے سرگودھا میں نوجوانوں کی نئی لیڈرشپ تیار ہو رہی ہے ۔نوجوانوں پر مشتمل نئی لیڈر شپ سرگودھا ضلع کے ساتھ ساتھ سرگودھا ڈویژن میں بھی اپنے مشن کو جاری رکھے گئے۔
سرگودھا کے رہائشی جاویدا قبال کا کہنا ہے کہ ثناور کی اس جدوجہد نے ہمارے نوجوانوں میں آگے بڑھنے اور اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ۔ہمارے زندگیوں اور گھروں میں بہت ساری خوشیوں کا سبب بنا ہے۔
ان سماجی خدمات کی وجہ سے اب سرگودھا کی کرسچین کمیونٹی نے ثناور کے ساتھ بہت ساری توقعات وابستہ کرلی ہیں ۔
جہدوجہد کرنا آسان نہیں میں بھی کبھی خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں
کئی سالوں سے جاری جدوجہدمیں اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی فلاح اور ان کی زندگیوں میں آسانیوں کے لئے کر رہا ہوں۔ میری یہ جدو جہد کمزور لوگوں کے استحصال ، ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے ساتھ روزانہ جنگ لڑنے والوں کے لئے ہے۔میں ’ثناور‘ اپنے محدود وسائل اور باعزت سماجی منصب کے باعث لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاہم بہت دفعہ خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں ۔ایسی بے بسی کی حالت سے نکلنے کے لئے میں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور حالیہ دنوں میں وکالت کا لائسنس حاصل بھی کر لیا ہے ۔ وکالت کی ڈگری حاصل کرنے سے میرے لئے قانون کے مطابق لوگوں کے انصاف اور ان کی رہنمائی کرنے میں مزید آسانی ہو گئی ہے۔
ثناور کے اس جذبہ خیر اور خدمات کو سراہتے ہوئے متعدد سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کی جانب سے ایوارڈز سے نوازاگیا ہے ۔ جن میں انٹرنیشنل یوتھ ،انسپریشنل یوتھ ایوارڈ ،قائد اعظم گولڈ میڈل،پیس اچیرویز اینڈ لیڈر شپ ایوارڈ اورانٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈے 2023 سریٹفیکیٹ بھی دیا گیا ۔ ثناور کے نیک جذبات اور سماجی خدمات کو دیکھتے ہوئے صوبائی وزارت برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور کے زیر تحت سرگودھا میں ضلعی ایگزیکٹو کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رُکنیت دی گئی ۔ جس کے تحت حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کمزور طبقوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے میں انہیں زیادہ مدد مل گئی ہے ۔
ثناور کا سماجی اور معاشرتی خدمات اورانکا اپنی ذات پر اعتماد دیکھتے ہوئے یہ گمان نہیں ہوتا کہ ان کا خاندانی پس منظر ایک عام اقلیتی گھرانہ سے ہے۔