قیافہ شناسی( فرحان ملک)
دنیا میں اگر کوئی بےوقوف قوم ہوگی تو میرے خیال میں وہ ہم سرائیکی ہی ہوں گے پرائی جن تے احمد نچے( دوسروں کی شادی میں احمد جس کو کوئی دعوت ہی نہیں وہ ناچنا شروع کر دے) دوسروں کی شادی میں عبداللہ بیگانہ یہ محاورہ ہم سرائیکیوں پر بالکل فٹ بیٹھ جاتا ہےہم اپنے حقوق پر پہرہ نہیں دے سکتے لیکن دوسروں کے استقبال کیلئے کھڑے ہوگئے اور یہ اتنی جلدی بھول گئے کہ جو تربت سے اسلام آباد کاسفر کرنے والا قافلہ ہے یہ نیشنلزم کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایتھنیسٹی کی بنیاد پر ہے۔
تربت سے اسلام آباد کی طرف نکلنے والے قافلے میں وہ مظلوم ہیں جو ریاست کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں دنیا کی کوئی ریاست کبھی بھی دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتی لیکن ہم سرائیکی چاہتے ہیں یہ ہماری ریاست جھک کر ان سے مذاکرات کرے ان کے کالعدم تنظیموں میں کام کرنے والے نوجوانوں کو چھوڑ دےہم سرائیکی چاہتے ہیں کہ ہمارے ڈیرہ غازی خان سے زندہ جانے والوں کو یہ عبرت کا نشان بنا کر مردہ حالت میں بھیج دیں ۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ ہماری افواج میں پچیس سے تیس ہزار کی نوکری کر کے گھر کے واحد کفیلوں کو دھماکوں میں مار دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ اپنے گھروں میں اسلحہ رکھیں ریاستی اداروں پر حملے کریں تاکہ ہم اپنے نوجوانوں کے جنازے اٹھا کر شہید کر کے خود کو وطن کا محب بنائیں ۔ ہم چاہتے ہیں ہم اپنے پردیسیوں کے سروں کو یہ فٹبال بنا کر واپسی بھیجیں ہمارے سیاحوں کو یہ لوٹ لیں لیکن ریاست اپنی رٹ کو قائم نہ رکھے اور ریاستی ادارے ان کے نوجوانوں کے ہاتھوں مریں اور ہم جشن منائیں کہ بلوچ بہادر قوم ہے۔
ہم بلوچستان کی عوام کے بنیادی حقوق کی بات کریں گے لیکن بالاچ بخش بلوچ جیسے دہشت گرد کیلئے نکلنے والے جلوس کی حمایت نہیں کر سکتے بلوچوں نے کبھی سرائیکیوں کو مظلوم نہیں کہا انھوں نے کبھی بھی سرائیکیوں کو مارنے سے پرہیز نہیں کیا۔ ان میں سے کئی یوں نے پنجاب سے نفرت کی اور پاکستان کو دشمن سمجھا اور ان میں سے کئی یہی لوگ ہیں جو ریاست کو مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سرائیکیوں کو سمجھنا کی ضرورت ہے اس وقت پاکستان میں تین سپریم اتھارٹی بلوچ قوم کی ہے وہ ان کے مقاصد جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ یہ وہ لوگ نکلیں ہیں جو اپنے نوجوانوں کو بی ایل اے اور بی ایل ایف میں بھیجتے ہیں جب وہ ان کو اہمیت نہیں دے رہے ان کو علم ہے کہ وہ کتنے مظلوم ہیں ہم سرائیکیوں کو بڑی ان کی فکر کھائے جا رہی ہے ۔
بالاچ بلوچ کو کل ریاست دہشت گرد سمجھتی تھی آج ریاست کا ہر باشندہ سمجھتا ہے ۔سی ٹی ڈی نے بالاچ بلوچ کو گھر سے اٹھایا عدالت میں پیش کیا جسمانی ریمانڈ کے بعد سبی روڈ پر ایک گھر میں تین لوگوں کا پتہ سی ٹی ڈی کو بالاچ بلوچ نے کیا بتایا جبکہ وہ تو کالعدم تنظیم بی ایل اے کا رکن ہی نہیں تھا تو ان تین کارکنوں کا علم کیسے تھا؟ دادو، شکور اور سیف بلوچ بی ایل اے اور بی ایل ایف کر رکن تھے یہ بالاچ بلوچ کو کیسے علم تھا؟ بالاچ بلوچ نے اعتراف کیا کہ اس نے 13 دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھا جس میں ڈیرہ غازی خان میں آنے والی لاشیں بھی شامل تھیں۔مرنے کے بعد دہشتگرد بالاچ کی لاش کو ”دہشتگرد تنظیم بی ایل اے“ کے پرچم میں کیوں لپیٹا گیا؟دہشتگرد گلزار امام شمبے اور سرفراز بنگلزئی کی ریاستی اداروں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور قومی دھارے میں شمولیت کی مثالیں بھی عوام کے سامنے ہیں جنہوں نے بھارت کی بلوچستان میں دہشتگردی کی پشت پناہی کو بے نقاب کیا ہے ۔
آج ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف والے سرائیکی کی پہچان بھول کر بلوچ بن گئے ہیں یہ لوگ تیار ہو جائیں جن کا استقبال کیا ہے کل کو انہیں کے نوجوان آپکے جوانی بھرے لڑکوں کی لاشیں آپ کے قدموں میں ڈالیں گے ڈیرہ غازی خان والے جوانوں کی قبریں ابھی سوکھی نہیں ہیں انہیں کو مارنے والوں کی حمایت کرنے والوں کے استقبال کیلئے خوشی سے جھوم اٹھے ہیں ۔ بلوچ یکجہتی کونسل کو لیڈ کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو بی ایل کا سرغنہ اور ریاستی اداروں پر لاتعداد حملوں میں ملوث تھا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ریاستی سکالرشپ پر تعلیم حاصل کی اور ابھی بھی ریاست پاکستان سے نتخواہ لیکر گھر کا نظام چلا رہی ہیں خود ریاست کے پیسے وصول کر رہی ہیں اور مطالبہ ہے کہ بی ایل اے کے رکن لوگوں کو ریاست واپسی کرے۔ یہ سوائے فیم حاصل کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے بس سرائیکی ایک مرتبہ پھر استعمال ہوگئے ہیں۔