’خواتین سیاسی میدان میں معاشی طور پر مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے بھی کامیاب نہیں ہوتیں،80فیصد سیاسی خواتین انتخابی مہم پر ہونے والے اخراجات کی وجہ سے سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے میں نا کام رہتی ہیں ۔80اور 90کی دہائی میں یہ لاکھوں کی جبکہ آج کے دور میں کروڑوں ہوں تو سیاست ہو سکتی ہے ‘یہ کہنا ہے سابق ایم این اے بیلم حسین کا۔
2018 کے انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 100خواتین نے حصہ لیا جن میں سے تین خواتین رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔2013کے الیکشن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی 48خواتین نے پنجاب اسمبلی کی 148نشستوں میں سے 74پر الیکشن لڑا جن میں سے صرف 2غلام بی بی بھروانہ اور سائرہ افضل تارڑ کامیاب ہوئی، یاد رہے کہ سائرہ افضل تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کی بہو اور ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر عطا تارڑ کی چچی ہیں ۔بعدازاں ضمنی انتخاب میں 2 اور خواتین شیزاہ منصب علی خان کھرل اور شازیہ مبشر اسمبلی کا حصہ بنیں ۔ قانون میں خواتین کے الگ سے کوٹہ کا تعین بھی کر دیا گیا اس کے باوجود خواتین سیاست میں عملی طور نظر نہیں آتیں۔گزشتہ انتخابات میں خواتین کاالیکشن میں تناسب 70فیصد تھا جبکہ کامیابی کی شرح 3فیصد تھی ۔2013 میں خواتین کا انتخابات کا حصہ لینےوا لی خواتین کا تناسب50فیصد تھا جبکہ جیت کی شرح 2.7فیصد تھی۔حیران کن بات یہ ہے خواتین کی بڑی تعداد الیکشن کا حصہ بنتی ہیں مگر کامیابی کی شرح کم ہے۔2018کے جنرل الیکشن میں خواتین کے مقابلے میں مر دوں کا پنجاب سے انتخابات میں 100 فیصد حصہ تھا جس میں سے 97فیصد مرد اسمبلی کا حصہ بنے۔
پنجاب کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کے علاوہ برادری اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے بھی امیدوار کی جیت اور ہار کا فیصلہ ہوتاہے۔سیاست میں خواتین کی شمولیت تو رہی لیکن چند بڑے خاندانوں کی بیٹیاں ہی سیاست کا حصہ بنتی نظر آتیں تھیں۔جس کی ایک بڑی وجہ پنجاب کے جاگیر داروں کا اپنےعلاقوں میں اثرروروخ بھی ہوتا تھا۔1970ء میں ہونے والے پہلے انتخابی نتائج کی بات کریں تو ضلع جھنگ سے سیدہ عابدہ حسین اسمبلی کا حصہ تھیں۔1977ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے پہلی وزیر مملکت خاتون عفیفہ ممدوٹ تھیں ۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی محسن لغاری نے خواتین کا سیاست میں حصہ بننے کے بارے میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کوپارٹی پالیسوں میں خواتین کو بھی انتخابی سیاست کا حصہ بنانے کے لئے پارٹی کی سطح پر یہ بات سب کو باور کروانے کی ضرورت ہے ۔پارٹیوں میں اگر یہ کلچر آ گیا تو خواتین خود بہ خود انتخابی سیاست میں شامل ہو جائیں گی۔ جنوبی پنجاب سے خواتین 70 کی دہائی سے سیاست کا حصہ ہیں۔
خواتین کو سیاست میں باقاعدہ الیکٹرول سسٹم کا حصہ بنانے کے لئے 2002 میں قانون سازی کی گئی۔قانون میں سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیاکہ تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں 5فیصد خواتین کی ٹکٹوں کا کوٹہ مختص کریں گیں۔2018 ء کے عام انتخابات میں ملک بھر سے 1691 خواتین امیدوار الیکشن کا حصہ بنیں ۔
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 107 رجسٹر ڈ سیاسی جماعتوں میں سے 59 جماعتوں نے کسی بھی خاتون امیدوار کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا۔ 48 جماعتوں نے مجموعی طور پر 304 خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کئے تھے۔الیکشن کمیشن کے مطابق چار سیاسی جماعتوں نے 5 فیصد خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کرنے کے قانون کی خلاف ورزی کی، جن میں اللہ اکبر تحریک ، جمعیت علمائے اسلام (س)، پی ٹی آئی (نظریاتی) اور پاسبان پاکستان شامل ہیں ۔ اللہ اکبر تحریک نے 240 جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کئے اور قانون کے بر خلاف 12 کے بجائے 10 نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دیئے تھے۔
436 خواتین نے قومی اسمبلی جبکہ 1255 نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے،2013 ء میں یہ تعداد 1 117 تھی ۔ پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین امیدوار صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کیلئے میدان میں تھیں جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں یہ تعداد 1 23 تھی ۔اس طرح تقریباً 3 گنا زیادہ تعداد میں خواتین امیدوار میدان میں آئی تھیں ۔
سابق ایم این اے بیلم حسین کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی انتخابی سیاست میں دو مرتبہ زیادہ خواتین سیاست کا حصہ بنیں پہلی بار جب بینظیر بھٹو کی پاکستان کی سیاست میں انٹری ہوئی اور دوسری بار جب جنرل پرویز مشرف نے انتخابات کا حصہ بننے کے لئے گریجوایشن کی ڈگری کو لازماً قرار دیا تھا ،تب بڑے سیاسی خاندانو ں نے گرایجویشن پاس خواتین کو سیاست میں آنے کی اجازت دی۔بیلم حسنین2002، 2008ء اور 2013 کی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے طرف سےخواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں ۔
2018کےعام انتخابات میں کن سیاسی جماعتوں نے خواتین کو ٹکٹیں دیں
پاکستان پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ 43 تحریک انصاف نے 42 اور مسلم لیگ ن لیگ نے 37 خواتین کو انتخابی ٹکٹیں جاری کیں تھیں۔متحدہ مجلس عمل نے 33، تحریک لبیک پاکستان نے 35 ، پاک سر زمین پارٹی نے 12 ، ایم کیو ایم پاکستان نے 6، آل پاکستان مسلم لیگ نے 8 ، پختو نخواملی عوامی پارٹی نے 18 ، عوامی نیشنل پارٹی نے 14 ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) سندھ نے 8، نیشنل پارٹی نے 7 ، مسلم لیگ (ق) نے 5 ، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) نے 3 اور بی این پی عوامی نے 2 جنرل نشستوں پر خواتین کوانتخابی ٹکٹ جاری کئے تھے۔
کیا خواتین سیاست کا حصہ کسی مجبوری میں بنتی ہیں؟
عام خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں خواتین کا آنا کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ہی ہوتا ہےبڑے سیاسی خاندان کسی پابندی کی وجہ سے اپنے خاندان کی خواتین کو سیاست کا حصہ بناتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نشست پر کوئی بھی انتخاب لڑے جیت انھیں کی ہے۔جنرل پرویز مشرف نے 2002کے انتخابات سے پہلے گرایجویشن کی ڈگری کا ہونا لازمی قرار دینے کےبعد بہت سے سیاستدانوں نے اپنے بیٹوں ،بھائیوں اور دیگر نے اپنی اہلیہ ،بیٹیوں اور بہنوں کو سیاسی میدان میں اتارا۔بعدازاں گریجوایٹ کی ڈگری جعلی ہونے کی وجہ سے عدالتوں نے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو نااہل قرار دیا جس کے بعد خالی ہونی والی نشستوں پر ضمنی انتخاب میں خواتین نے حصہ لیا۔مثال کے طور پر مظفر گڑھ کے سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان کے صاحبزادے نوابزادہ منصور احمد خان 2002کے عام انتخابات میں
گریجویشن کی شرط عائد ہونے کی وجہ سے حصہ نہ لے سکے تو انہوں نے اپنی نشست پر اپنی صاحبزادی سنیعہ منصور کو کھڑا کر دیا۔0022اور2008 کے انتخابات میں زیادہ خواتین انتخابی سیاست کا حصہ بنیں۔ ایمان طاہر میجر (ر) طاہر کے بیٹی 2002 میں انتخابی سیاست کا حصہ بنیں جبکہ 2008 کے الیکشن میں آزاد حیثیت میں حصہ لیا مگر ہار گئی ۔ جھنگ سے تین خواتین غلام بی بی بھروانہ اور عابدہ حسین دونوں ہی مسلم لیگ ق کی امیدوار تھیں جس میں غلام بی بی بھروانہ بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئیں ۔ 2002مشرف دور کے انتخابات میں این اے 96سےگوجرانوالہ سے روبینہ سلیم ق لیگ اور این اے 101عاصمہ شاہنواز پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر5ہزار سے کم ووٹوں کے مارجن سے ناکام ہوئیں تھیں ۔ ضلع ناروال سے سمیرا یاسر رشیدبطور آزاد امیدوار،عطیہ افضل چودھری بھی آزاد امیدوار دونوں ہار گئیں جبکہ مسلم لیگ ق کی رفعت جاوید کامیاب رہیں۔لاہور سے روبینہ شاہیں بطور آزاد،بیگم رخسانہ آزاد دونوں ہی ناکام رہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی ثمینہ خالد گھرکی کامیاب رہیں۔ضلع قصور سے سیدہ نیلوفر قاسم مہدی بطور آزاد حیثیت رنر اپ رہیں۔اوکاڑہ کے ایک حلقہ این اے 147سے تین خواتین روبینہ شاہین وٹو،مسلم لیگ جناح سے کامیاب ہوئیں جبکہ زرین اختر قادری ،نیشنل پیپلزپارٹی ورکر گروپ اور آزادفرزانہ سعید وٹو شکست کھا گئیں۔ خواتین سیاست میں آتیں تو ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتیں۔پیپلز پارٹی پارلیمانی بورڈ کی ممبر سابق رکن قومی اسمبلی بیلم حسین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں خانہ پوری کرنے کے لئے خواتین کو ٹکٹ جاری کرتیں ہیں۔دوسرا 2002 کے بعد سے انتخابات پر بہت اخراجات آتے ہیں جو کہ سفید پوش خواتین کے بس کی بات نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ جو خواتین خاندانی طور پر امیر ہیں انکے ووٹوں کا تناسب کسی حد تک زیادہ ہے۔
پنجاب کے سیاسی خاندانوں کی خواتین کا انتخابی سیاست میں کردار
پنجاب کے بڑے سیاسی خاندانوں میں دریشک،ڈاہا،روکڑی،سردار ،سید،عباسی،قریشی،قصوری،کالا باغ کے نواب،کھر ،کھرل،کھوسہ،گیلانی،لغاری ،مخدوم زادے،مزاری،نوابزادے اور وٹو انتخابی سیاست میں بہت کم خواتین کوسیاست میں آئیں۔بی بی سی اردو سے وابستہ سینئر تجزیہ کار احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ’ اگر سیاسی گھرانوں کی کی بات کریں کہ تو بہت کم سیاسی گھرانے ایسے ہیں جہاں سے خواتین سیاست کے میدان میں آتیں ہیں مثال کے طور پر پنجاب میں شریف خاندان ہے ، ویسے انکو سیاسی خاندان نہیں کہہ سکتے کیونکہ میاں نواز شریف نے ہی الیکشن لڑا اور یہ سلسلہ جاری ہے سیاست میں انکی دوسری یا تیسری نسل میں ابھی تک کوئی سیاست کا حصہ نہیں بنا ۔اگر اس خاندان کو ہی دیکھیں تو کلثوم نواز اور مریم نواز اگر سامنے آئیں تو ایک خاص حالات و واقعات کے تناظر میں سامنے آئیں ۔نواز شریف جب قید وبند میں تھے اور الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے تو کلثوم نواز نے انکے حلقے سے انتخاب لڑا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ’’ خواتین کے کے لئے فضا کبھی ساز گار نہیں رہی اس لئے سیاسی خاندان کی خواتین جب سیاست میں آتیں ہیں تو ووٹر کو پتہ ہوتا ہے کہ انہیں با وجہ مجبوری سیاست میں اتارا گیا ہے‘‘۔
انتخابی سیاست میں ،سیاسی خاندانوں کی بات کریں تونواب آف کالا باغ سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان مرحوم کی پوتیاں سمیرا ملک اور عائلہ ملک بھی سیاست میں ہیں۔ڈیرہ غازی خان سردار جما ل خان لغاری کی صاحبزادی پہلی وزیر مملکت خاتون عفیفہ ممدوٹ بھی سیاست کا حصہ رہیں ۔عفیفہ ممدوٹ ،سردار محمد خان لغاری کی بہن ہیں ۔ضلع مظفر گڑھ سے نوابزادہ نصر اللہ کی صاحبزادی کی سنیعہ منصور کی پوتی بھی پاکستان کی سیاست کا حصہ رہی ۔مظفر گڑھ کے سردار امجد حمید دستی کی صاحبزادی تہمینہ دستی بھی سیاست کا حصہ رہی۔وہاڑی ،دولتانہ خاندان سے پھوپھی بھتیجی سیاست کےمیدان میں ہیں ۔ممتاز دولتانہ کے بھتیجے میاں ریاض احمد دولتانہ کی صاحبزادی اور میاں زاہد خان دولتانہ کی ہمشیر تہمینہ دولتانہ اور زاہد دولتانہ کی صاحبزادی نتاشہ دولتانہ سیاست میں ہیں ۔ ضلع جھنگ کے سیاسی خاندان کی بات کریں تو کرنل عابد حسین کی وفات کے بعد ان کی وراثت ان کی اکلوتی بیٹی عابدہ حسین نے سنبھالی۔سیدہ عابدہ حسین اور سید فخر امام کی صاحبزادی صغریٰ امام بھی سیاست میں ہیں ۔
2018انتخابا ت ، پنجاب سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں رنر اپ آنے والی خواتین کون؟
گزشتہ انتخاب میں پنجاب اسمبلی کی 141قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 10خواتین جنرل نشستوں پر اپنے حلقوں میں دوسری پوزیشن پر آئیں ۔ یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب امیدوار سے چند ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست کھا گئیں ۔
ضلع سیالکوٹ سے فردوس عاشق اعوان (تحریک انصاف) ،حافظ آباد سے سائرہ افضل تارڑ(مسلم لیگ ن)،خوشاب سے سمیرا ملک (مسلم لیگ ن)،سرگودھا سے نازیہ عزیر (تحریک انصاف) ، ننکانہ صاحب سے شیزرا منصب علی خان (مسلم لیگ ن)لاہور سے یاسمین راشد(تحریک انصاف)،ضلع وہاڑی سے دو خواتین جنرل نشستوں پر دوسرے نمبر پرآئیں جن میں عائشہ نذیر جٹ (آزاد)تہمینہ دولتانہ (مسلم لیگ ن) ،بہاولنگر سے ،فاطمہ طاہر چیمہ(تحریک انصاف) اوربہاولپور سے خدیجہ عامر (تحریک انصاف) تھیں۔
فاطمہ طاہر بشیر چیمہ پہلی بار انتخابی سیاست کا حصہ بنیں انکے والد طاہر بشیر چیمہ نے 1990میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغا زکیا تھا۔2013ء میں وہ ن لیگ کےٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اپریل 2018ء میں وہ جنوبی پنجاب محاذ کا حصہ بن گئے اور ن لیگ کو خدا حافظ کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔ فاطمہ طاہر بشیر سابق وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ کی بھتیجی ہیں۔خدیجہ عامر ستمبر 2010ء میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں این اے 184 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار کی حیثیت سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ خدیجہ عامر تحریک انصاف کے سابق ایم این اے ملک عامر یار وارن کی اہلیہ ہیں۔پاکستان کی انتخابی سیاست میں خواتین کا کم تعداد میں کامیاب ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں عورت کو آج بھی اقتدار میں آنے کےلئے اپنوں ہی کی حمایت حاصل نہیں ۔