الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی ) نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
پیر کے روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کے خلاف 14 درخوستگزاروں کی درخواستوں پر سماعت کی جس کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے اور اپنے دلائل مکمل کیئے۔
اس سے قبل درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کے اندر 2019ء کے پارٹی آئین کے تحت انتخابات کرانے کا حکم دیا جس پر چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ بولے کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر یہاں زیر بحث نہیں ہے جس کے جواب میں علی ظفر نےکہا کہ ہم آپ کے حکم کو چیلنج نہیں کر رہے، جب بلامقابلہ انتخاب ہو تو ووٹنگ کی ضرورت نہیں ہوتی، عام انتخابات میں لوگ بلامقابلہ منتخب ہوتے ہیں، بلا مقابلہ انتخابات کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین میں انٹرا پارٹی الیکشنز کا طریقہ درج نہیں، اگر کوئی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کراتی ہے تو کوئی ممانعت نہیں، تحریک انصاف کے پارٹی آئین میں صرف خفیہ بیلٹ بیپرز کا ذکر ہے، الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بطور ٹریبونل نگرانی نہیں کرتا، کسی جماعت کے آئین میں پارٹی انتخابات کے رولز اور قوانین موجود نہیں۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن فیصلے کے مطابق غیر ممبر پارٹی فیصلہ چیلنج نہیں کرسکتا، ممبر کو پارٹی نکال بھی سکتی ہے، ممبر کو پارٹی میں رہنے کے لیے فیس جمع کرانا ہوتی ہے، اگر کسی کو جماعت میں رہنے کا شوق ہے تو ٹرائل کورٹ جا سکتا ہے۔
ممبر کمیشن نے استفسار کیا کہ نئے چیئرمین کے آنے تک پارٹی چیئرمین کون تھا؟ جس پر علی ظفر نے بتایا کہ گزشتہ چیئرمین ہی چیئرمین تھے، یہی قانون ہے، صدر مملکت بھی وقت پورا کرچکے لیکن وہ تاحال صدر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعت کے عہدیدار پارٹی آئین کے تحت منتخب ہونگے، تمام سیاسی جماعت کو الیکٹرول کالج پورا کرنا ہوتا ہے، سیاسی جماعت انٹراپارٹی انتخابات مقرر وقت میں کرانے کی پابند ہیں، اگر سیاسی جماعتی الیکشن نہ کرائے تو الیکشن کمیشن شوکاز دے گا، الیکشن کمیشن اس جماعت کو 2 لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ آئین میں خفیہ رائے شماری ہے تو اوپن بیلٹ کیوں کرائے؟، الیکشن ایکٹ کے مطابق انتخابی نشان کیلئے شرائط ہم نے پوری کردی ، الیکشن کمیشن کو 4 مختلف ڈاکومنٹس دینے پر انتخابی نشان مل جاتا ہے۔
علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ ان درخواستوں سے لگتا ہے کہ جیسے ہم نے پارٹی انتخابات خفیہ اور چھپا کر کئے، مختلف نیوز چینلز پر پارٹی انتخابات ہونے کی خبریں نشر ہوئیں
ممبر الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ ان خبروں میں انتخابات کی جگہ تو نہیں بتائی گئی، کیا آپ نے پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ انتخابات بلامقابلہ ہوں گے؟، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ جی نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں تھا، مختلف اخبارات میں بھی پارٹی الیکشن سے متعلق خبریں شائع ہوئیں، میں نے خود بھی پارٹی انتخابات کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے مختلف اخبارات کا ریکارڈ بھی الیکشن کمیشن میں پیش کیا۔
علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان تمام پارٹی دفاتر کے باہر چسپاں کیا تھا جس پر ممبر نے استفسار کیا کہ آپ نے انتخابات پشاور میں کرائے ، علی ظفر نے کہا کہ تمام جماعتوں نے انٹرا پارٹی انتخابات ایک ہی شہر میں کرائے، یہ عام انتخابات نہیں بلکہ انٹرا پارٹی انتخابات تھے۔
ممبر سندھ نے استفسار کیا کہ آپ نے پہلی بات یہ کی کہ جو ممبر نہیں وہ الیکشن نہیں لڑسکتا، دوسرا یہ کہ الیکشن بلامقابلہ ہوئے ، تیسرا آئین میں طریقہ کار نہیں؟۔
علی طفر نے بتایا کہ ہماری واحد جماعت ہے جس کی ساری تفصیلات انٹرنیٹ پر ہیں، رابطہ نام سے ایک موبائل اپلیکیشن پر سارا مواد موجود ہے،رابطہ ویب سائٹ پر شناختی کارڈ ڈال کر ممبر کی تفصیلات لی جاسکتی ہے۔
دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ اب تو سیاسی جلسے بھی انٹرنیٹ پر ہو رہے ہیں۔
ممبر پنجاب نے استفسار کیا کہ پارٹی کی ممبر شپ سے ہٹانے کا کیا طریقہ ہے؟، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ شوکاز نوٹس جاری کرکے ممبرشپ خارج کر دی جاتی ہے، ممبر نے استسفار کیا کہ کیا اس فیصلے کیخلاف اپیل کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے؟، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ صرف امیدوار کو پارٹی کے اندر ہی اپیل کرنے کا حق ہے، ممبر نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزاروں میں کوئی آپ کا ممبر تھا؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ شاید اکبر ایس بابر ممبر تھے باقی پی ٹی آئی کے ممبران نہیں۔