اسلام آباد ہائی کورٹ نے معروف قانون دان لطیف کھوسہ اور بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو لیکس کے فرانزک کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی رپورٹ دیں آڈیو کس نے ریلیز کی۔
جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ اور بشریٰ بی بی کی آڈیولیکس کیس کی سماعت کی جس کے دوران عدالت عالیہ کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) کو آڈیو کے فرانزک کا حکم دیا گیا جبکہ عدالت نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) بھی رپورٹ دیں کہ آڈیو کس نے ریلیز کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست کی کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی بھیجنے کا حکم جاری کیا گیا۔
عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ تحقیقات کی جائیں کہ سب سے پہلے آڈیوکہاں سے جاری ہوئی جبکہ ایف آئی اے ، پیمرا اور پی ٹی اے کو بھی نوٹس جاری کر دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں۔ لطیف کھوسہ اور بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو سامنے آگئی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست پر عائد اعتراضات بھی ختم کر دیے۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پیمرا بتائے لوگوں کی نجی گفتگو کیسے چینلز پر نشر ہو رہی ہے؟ درخواست پر رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض ہے؟۔
سماعت کے دوران وکیل نے بتایا کہ اعتراض ہے الگ درخواست دائر کریں ، متفرق درخواست کیسے کر سکتے ہیں۔
لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ آڈیو لیکس کیس میں متفرق درخواست دائر ہوسکتی ہے، وکیل اور موکل کے درمیان گفتگو پر استحقاق ہوتا ہے۔
دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ بگ باس سب سن رہا ہوتا ہے آپ کو تو پتا ہونا چاہیے جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
یہ بھی پڑھیں۔ ’’ شرم آنی چاہیے ‘‘ ، لطیف کھوسہ کا مبینہ لیک آڈیو پر ردعمل
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ سب کو پتا ہے کون ریکارڈ کرتا ہے، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ مفروضے پر تو نہیں چل سکتے، کیا آڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے؟۔
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ آڈیو تمام ٹی وی چینلز نے نشر کی۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ سب سے پہلے ٹوئٹر پر آئی یا کہیں اور؟ ، معلوم ہوجائے ریلیز کہاں ہوئی تو پتا چل سکتا ہے کہ یہ ریکارڈ کس نے کی۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پیمرا ویسے تو کسی کا نام لینے پر بھی اسکرین بند کر دیتا ہے، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا کہ آپ کا فون محفوظ نہیں، یہ میرا نہیں پورے ملک کے وکلاء کا مسئلہ ہے، وکیل موکل سے آزادی سے بات نہ کر سکے تو نظام انصاف کیسے چلے گا۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی۔