ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کی راہ ہموار ہوگئی۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے مجوزہ آئینی ترمیم کی تمام ترامیم کی شق وار منظوری دے دی۔ رپورٹ کل سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔ جبکہ اتحادی جماعتوں کی مجوزہ ترامیم پرکل دوبارہ غورکیا جائے گا۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کی اتفاق رائے سے منظوری کی راہ ہموار ہوگئی۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے بیشتر ترامیم پر مشتمل بنیادی مجوزہ ڈرافٹ منظور کرلیا۔ کمیٹی ارکان نے صدرمملکت کو عہدے پر رہتے ہوئے اور بعد میں بھی استثنیٰ دینے پر اصولی اتفاق کرلیا تاہم اس کا اطلاق کس حد تک ہوگا۔ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
ترمیم کے مطابق صدر مملکت ہائیکورٹ کے جج کوجوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ٹرانسفر کرنے کے مجاز ہوں گے، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا، ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سینئر نہیں ہوگا۔ اتفاق کیا گیا کہ آئینی عدالتیں قائم ہوں گی، کوئی بھی کیس ایک سال تک پیروی نہ ہونے پر نمٹا ہوا تصور ہوگا۔
متفقہ نکات میں وزیراعظم کو7مشیر رکھنے کا اختیار شامل ہے، وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد بھی بڑھانے کی تجویزپرغور کیا گیا۔ مجوزہ ترمیم پرکمیٹی اپنی رپورٹ سینیٹ میں پیش کرے گی، جس کے بعد آئینی ترمیم منظور کروانے کے مراحل کا آغاز ہوگا۔
اجلاس میں ایم کیو ایم کی بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز سے متعلق ترمیم پر بھی مشاورت کی گئی تاہم پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کی تجاویز پر اعتراض اٹھایا جبکہ دیگر اتحادی جماعتوں کی جانب سے مزید تین ترامیم پیش کی گئیں۔ خیبر پختونخوا سے نام خیبر ہٹا کر پختونخوا رکھنے کے تجویز پر بھی غور ہوا، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے پر بھی مشاورت ہوئی۔
خیال رہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں سے الگ الگ دو تہائی اکثریتی حمایت درکار ہو گی۔ اس وقت آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ سے 64 اور قومی اسمبلی سے 224 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔ سینٹ میں اپوزیشن بینچز پر30 ارکان موجود ہیں جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے۔






















