اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کی جج تعیناتی اور جیل ٹرائل کے خلاف اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت پرمشتمل دو رکنی بینچ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل اور جج کی تعیناتی کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس کے دوران ان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور جوابی دلائل دیئے۔
عمران خان کےوکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کر تےہوئے کہ جج کی تعیناتی بہت اہم معاملہ ہے،کچھ حقائق سامنےرکھوں گا جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کی دستاویزات کے مطابق جج تعیناتی کاعمل ہائیکورٹ سےشروع ہوا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 16اگست کواوپن کورٹ میں جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا،اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے،انہیں پیش کیے گئے بغیر جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا حالانکہ شاہ محمود قریشی کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
وکیل نے بتایا کہ 29 اگست کو سائفر کیس کی جیل سماعت کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس پر جسٹس میاں گل حسن نے مکالمہ کیا کہ آپ کےدلائل بعد کے ہیں ، اپیل قابل قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جس میں اسپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے ، سیکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا ہے جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائی ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکر بھی موجود نہیں نا ہی وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے جبکہ سلمان اکرم نے جواباً کہا کہ نوٹیفکیشن میں جنرل سیکیورٹی خدشات کی بات کی گئی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ حکومت جیل ٹرائل کیلئے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ درخواست آنے پرعدالت دوسرے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے ، سیکشن 9 کے تحت جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکتا،اس سیکشن کے تحت عدالت کی جگہ تبدیل کی جا سکتی ہے لیکن جیل ٹرائل کا ذکر نہیں ، یہ سزائے موت یا عمر قید کا کیس ہے اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے استفسار کیا کہ اگر سیکیورٹی خدشات ہوں تو حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ حکومت کو یہ معاملہ متعلقہ جج کے سامنے رکھنا چاہیے تھا۔
جسٹس گل حسن نے ہدایت کی کہ راجہ صاحب، آپ اپیل قابل سماعت ہونے پر اپنے دلائل دیں ، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ جج کی جانب سے 2 اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے ، جج نے اس خط میں پوچھا کہ کیا ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تو نہیں؟ ،جج اس خط کے ذریعے پوچھ رہا ہے کہ آپ مناسب سمجھیں تو جیل ٹرائل کیلئے تیار ہوں ، جج نے کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا۔
سلمان اکرم راجا نے موقف اختیار کیا کہ وزارت قانون کا 29 اکتوبر کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن درست نہیں اوریہ بھی کنفیوژن ہے کہ جیل ٹرائل کا مقصد کیا ہے ؟ ، کیا ایسا سیکیورٹی خدشات کے باعث ہے یا حساس کیس کے باعث پبلک کو اس سے دور رکھنا ہے، جیل ٹرائل کا واحد مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو منظر سے غائب کرنا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ پٹیشنر کو بہرحال سیکیورٹی تھریٹس تو ہیں، آپ پہلے اپیل قابل سماعت ہونے پر اپنے دلائل مکمل کر لیں،آپ کے بعد ہم اٹارنی جنرل کے جوابی دلائل سنیں گے، عدالت کیس قابل سماعت ہونے پر اپنا مائنڈ کلیئر کرنا چاہتی ہے، یقین دہانی کراتے ہیں کہ آپ کو دلائل دینے ہوئے تو دوبارہ موقع دیا جائے گا، آپ تھوڑا وقفہ کر لیں ہم اٹارنی جنرل کو قابل سماعت ہونے پر سن لیتے ہیں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ 2 اکتوبر کو کیس کا چالان جمع ہوا، سائفر کیس کا ٹرائل 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کارروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا سیکیورٹی تھریٹ سے متعلق رپورٹ ٹرائل کورٹ جج کو پیش کی گئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں، وہ رپورٹ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے نہیں رکھی گئی، جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کس مواد کی بنیاد پر پہلا خط لکھا؟ اگر میرٹ پر دلائل سنتے ہیں تو آپ کو اس نکتے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جج نے سیکیورٹی خدشات پر جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟، کیاجج کے ساتھ رپورٹس شیئرکی گئی تھیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ بات عمومی طور پر عام تھی اور عدالت کو بھی اس کا علم تھا، ریمانڈ کے لیے بھی جج کوجیل جانا پڑا توانہیں اس کا احساس تھا۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جیل سماعت کے نوٹیفیکیشنز جاری ہوتے رہے اور جج کارروائی چلاتے رہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست پر کئی ہفتے فیصلہ محفوظ رکھا، سنگل بینچ نے اتنے اہم کیس میں طویل عرصے تک فیصلہ محفوظ رکھا، ہم فیصلے کا انتظار کرتے رہے، اس دوران مزید نوٹیفکیشنز جاری ہوگئے۔
سلمان اکرم راجا نے موقف اختیار کیا کہ یہ ایسا جیل ٹرائل ہے جس میں اہل خانہ کو بھی سماعت دیکھنے کی اجازت نہیں، تمام افراد کی جیل ٹرائل کے دوران داخلے پر پابندی سے یہ ان کیمرا ٹرائل ہے۔
جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ جب میں سپیشل کورٹس کا ایڈمنسٹریٹو جج تھا تو مجھے شکایات موصول ہوتی تھیں، خصوصی عدالتوں کا عملہ وزارت قانون کے ماتحت ہوتا ہے، خصوصی عدالتوں کے ججز شکایت کرتے تھے کہ سٹاف ہماری بات ہی نہیں سنتا، وہ ججز حتی کہ ہائیکورٹ بھی سٹاف کے خلاف ڈسپلنری کارروائی نہیں کر سکتی، یہ چیزیں عدالتوں کیلئے انصاف فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں تین احتساب عدالتوں کی منظوری دی گئی لیکن پورے دور میں وہ احتساب عدالتیں قائم نہیں ہو سکیں۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 12 نومبر سے پہلے کے نوٹیفکیشنز میں کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی جس پر جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے کیا قانونی طور پر پراسس مکمل کیا ؟ جو ٹرائل ہو چکا اس پر کیا اثرات ہوں گے ؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے جواباً کہا کہ جو ٹرائل 12 نومبر تک ہوا وہ کالعدم ہو گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ عدالت کو ایک ایک کر کے بتائیں پراسس کیا تھا جس کو فالو کرنا ضروری تھا جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ پراسس مکمل کرنے سے پہلے کے ٹرائل کو صرف بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس میاں گل نے حسن نے ریمارکس دیے کہ عوام کو عدالتی کارروائی سے باہر رکھنے کا اختیار متعلقہ جج کا ہے، اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جج کی طرف سے عوام کو باہر رکھنے کا کوئی آرڈر موجود نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق ایسا آرڈر نہ ہونے کے باعث اسے اوپن ٹرائل تصور کیا جائے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل کو اِن کیمرا ٹرائل بنا دیا گیا ہے، اِس ٹرائل میں فیملی ممبرز کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی گئی جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ اس عدالت نے ایک سوال اپنے پہلے تحریری آرڈر میں بھی رکھا تھا، وفاقی کابینہ کی منظوری سے پہلے ہونے والے ٹرائل کا اسٹیٹس کیا ہوگا؟۔
یہ بھی پڑھیں۔ سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر حکم امتناع میں توسیع کا تحریری حکم جاری
عدالت نے رجسٹرار سے استفسار کیا کہ وزارت قانون نے جج کی تعیناتی کیلئے پراسیس کا آغاز کیسے کیا؟۔
بعدازاں، عدالت عالیہ کی جانب سے جیل ٹرائل روکنے کے حکم میں ایک روز کی توسیع کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کل دن 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن اور سیکیورٹی خدشات سے متعلق رپورٹس بھی کل طلب کرلی گئیں۔