پاکستان اور طالبان رجیم کے مذاکرات کا اہم ترین دور آج ہوگا۔ تمام نظریں استنبول پر ہیں۔
پاکستان کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی روکی جائے۔ کابل کو دو ٹوک پیغام دے دیا گیا ہے کہ مطالبات میں کوئی نرمی نہیں ہوگی۔
وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ افغان وفد یہ ضمانت دینے کےلیے تیارنہیں کہ ان کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ پاک افغان، مذاکرات، پیش رفت کی امید ہوتی ہے تو تبی بات کی جاتی ہے، اگر پیش رفت کا امکان نہ ہو تو پھر وقت کا ضیاع ہی ہے۔
اس سے قبل پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور 25 اکتوبر کو استنبول میں ہوا، طویل اور اعصاب شکن مذاکرات کا یہ دور افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کے ایک نکاتی پاکستانی مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔
ان مذاکرات کے دوران افغان وفد بار بار کابل اور قندہار سے ہدایات لیتا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتا رہا، مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستانی وفد وطن واپسی کے لیے روانہ ہوا تو استنبول ائیرپورٹ سے ترکیے کی درخواست پر مذاکرت کو ایک آخری موقع دینے کے لیے پھر واپس ہوا۔
ترکیے کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق فریقین نے سیز فائر برقرار رکھنے، قیام امن کے لیے مانیٹرنگ اینڈ ویری فکیشن مکینزم ترتیب دینے اور خلاف ورزی کرنے والے کے لیے سزا پر اتفاق کرتے ہوئے 6 نومبر کو اعلیٰ سطحی مذاکرات پر اتفاق کیا۔






















