دنیا بھر کی طرح پاکستان کا بھی انٹرنیٹ پر انخصار زیر سمندر فائبر آپٹک کیبلز پر ہی ہے اسی نظام کے تحت ملک کو بین االاقوامی نیٹ ورکس کے ڈیٹا کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے انٹرنٹ کی رفتار اور معیار انہیں کیبلز پر ہوتا ہے اداروں کی جانب سے جب بھی سمندری فائبر آپٹک میں خرابی کی ایڈوائزری جاری کی جاتی ہے تو ملبہ سمندری جاندار شارک یا ویل پر ڈال دیا جاتا ہے بلکہ بات اب تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ شارک صرف پاکستان کی کیبل کو کیسے پہچان لیتی ہے؟ اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت خود انٹرنیٹ کو سست کر دیتی ہے تاکہ عوامی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ ان تمام باتوں میں حقیقت کتنی ہے اور مفروضہ کتنا، یہ جاننا ضروری ہے
پاکستان مجموعی طور پر سات بین الاقوامی کیبل سسٹمز سے تمام دنیا سے منسلک ہے جس میں پانچ مکمل طور پر فعال ہیں جبکہ دو رواں برس فعال ہونے کی امید ہے ملک کو سب سے پہلے عالمی نیٹ ورک سے جوڑنے والی کیبل سی ای اے -ایم ای –ڈبلیوای تھری (SEA-ME-WE 3) تھی جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ کے ذریعے کراچی کے ساحل تک منسلک ہوئی اس کا نیٹ ورک سنگاپور اور یورپ تک تھا 2005 میں فعال ہونےوالی دوسری کیبل سی ای اے -ایم ای –ڈبلیوای فور SEA-ME-WE 4)) کی بھی پی ٹی سی ایل کے ذریعے ہی کراچی پورٹ تک رسائی ممکن ہوئی اس انٹرنیٹ نے پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا پھر IMEWEکیبل نے پاکستان کو بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ سے ہائی اسپیڈ کنکشن فراہم کیا۔
پہلی بار ملک کو 2017 میں AAE-1 کے ذریعے جدید فائبر نیٹ ورک کی سہولت میسر آئی جبکہ PEACE Cableنے انٹرنٹ نظام کو مزید موثر بنا دیا پاکستان رواں برس ہی دنیا کی سب سے بڑی زیرسمندر کیبل 2Africa اور Africa-1 سے بھی جڑنے جا رہا ہے جن سے انٹرنیٹ کی رفتار میں نمایاں بہتری آئے گی
اب آتے ہیں اس زبان زد عام جملہ کی جانب جو اکثر سننے کو ملتا کہ شارک نے سمندری میں کیبل پر حملہ کر دیا کیا شارک یا دیگر سمندری مخلوق انٹرنیٹ کیبلز کو نقصان پہنچاتی ہیں؟ تو اس جواب ہے بالکل نہیں
بین الاقوامی کیبل پروٹیکشن کمیٹی (ICPC)کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق شارک یا ویل مچھلیوں کا زیر سمندر فائبر آپٹک کو چبانے یا کانٹے کا کوئی ٹھوس سائنسی ثبوت موجود نہیں ۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں چند رپورٹس ضرور سامنے آئیں جن میں دعوی کیا گیا تھا کہ شارک مچھلیاں کیبلز میں دلچسپی لیتی ہیں لیکن وہ بھی حقیقت کے برعکس تھیں جدید فائبر کیبلز کے دور میں تو یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ انہیں مضبوط حفاظتی تہوں ،واٹرپروفنگ اور ہائی وولٹیج شیلڈ کے ساتھ تیار کیا جا تا ہے کیبلز کو نقصان پہنچنے کی اصل وجہ بحری جہازوں کے اینکرز ،قدرتی آفات ،زلزلے اور زیر سمندر لینڈ سلائنڈنگ ہے جو کیبل پرگر کر اسے متاثر کرتی ہیں
دوسرا اہم مسلہ جو پاکستان میں انٹرنٹ کی رفتار کو کم کرتا ہے وہ ہے لیڈنگ پوائنٹس ،زیادہ تر کیبلز کراچی کے ساحل سے منسلک ہیں۔ اگر کسی ایک مقام پر فنی خرابی ہو جائے یا مرمت کا کام جاری ہو تو پورے نظام پر اثر پڑتا ہے جب ایک کیبل میں مسئلہ آتا ہے تو تمام ڈیٹا ٹریفک کو دوسری لائنوں پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جس سے بوجھ بڑھنے کے باعث ملک بھر میں رفتار سست ہو جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ سکیورٹی وجوہات یا حساس حالات میں حکومت نے سوشل میڈیا یا مخصوص ایپس پر عارضی پابندیاں ضرور لگائی ہیں مگر عمومی طور پر انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی زیرسمندر کیبلز کی خرابی ہی ہوتی ہے
پاکستان کسی ایک انٹرنیٹ سورس پر انحصار نہیں کرتا شارک یا ویل مچھلی کی کہانیاں زیادہ تر افواہیں ہیں، جبکہ اصل مسلہ تکنیکی خرابی، جغرافیائی خطرات اور محدود انفراسٹرکچر ہےاگر مستقبل میں گوادر، پسنی یا اورماڑہ جیسےعلاقوں میں مزید لینڈنگ پوائنٹس بنائے گئے تو پاکستان کا انٹرنیٹ نظام مزید مضبوط، تیز رفتار اور پائیدار ہو جائے گا، اور شاید پھر ہمیں انٹرنیٹ بند ہونے پر ’’شارک نے کیبل کاٹ دی‘‘ جیسے لطیفے سننے کو نہ ملیں۔





















