جسٹس منصور علی شاہ نے نئے عدالتی سال کے آغاز سے قبل چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک اور خط لکھ کر چھ اہم سوالات سامنے رکھ دیئے ہیں ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے کیوں نہیں بلایا گیا؟ رولز میں ترمیم کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے کیوں لی گئی؟ اختلافی نوٹ سے متعلق نئی پالیسی فل کورٹ میں بحث کے بغیر کیوں بنائی گئی؟ اور ججز کی چھٹیوں سے متعلق نیا آرڈر عدلیہ کی آزادی سے متصادم کیوں جاری ہوا؟
خط میں یہ سوالات بھی شامل ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ میں کیوں مقرر نہیں کی گئیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھا کہ کیا آپ ججز کو آزادی دے رہے ہیں یا عدالت کو رجمنٹڈ فورس میں بدل رہے ہیں؟ یکطرفہ طور پر بینچزکی تشکیل اور کاز لسٹ جاری ہورہی ہے، جبکہ ججز روسٹر بھی بغیر مشاورت کے دستخط کیلئے بھیجے جاتے ہیں۔ سینئر ججز کو دو رکنی جبکہ جونیئر ججز کو تین رکنی بینچز کیوں دیئےجا رہے ہیں؟ قومی اہمیت کے مقدمات سینئر ججز کے سامنے کیوں مقرر نہیں کئے جا رہے؟ جسٹس منصور نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ آٹھ ستمبر کو جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پر ان سوالات کے جواب دیں۔ لکھا کہ بطور موسٹ سینئر جج ادارے کی ڈیوٹی سمجھ کر یہ خط لکھ رہا ہوں، متعدد خطوط لکھے لیکن آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ جسٹس منصور کے مطابق عوامی سطح پر آپ کا جواب ججز اور عوام کو اعتماد دے گا اور ریفارمز کے شفاف اور آئینی ہونے کی یقین دہانی ہوگی۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ کوئی ذاتی یا متاثرہ شخص کا خط ہے۔






















