وطن عزیزقیام سےآج تک کئی چیلنجزسے نبرد آزماہے کبھی مون سون کی شدید بارشیں توکبھی گلیشیئرز کا پگھلنا اورکبھی ہمسایہ ملک بھارت کی طرف سےآبی جارحیت،یہ سب ملکرپاکستان کو خوفناک سیلابوں سے دوچار کرتےرہےہیں۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسے خطے میں واقع ہے جہاں باربار سیلاب آنا ایک حقیقت ہے جس سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اورمعیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے بڑے سیلاب اوراس کی تباہ کاریوں پرایک نظرڈالیں تو اس کی تفصیل کچھ یوں بنتی ہے۔
پاکستان میں انیس سو پچاس سے لےکرآج تک کئی بڑے سیلاب آچکےہیں۔انیس سو پچاس میں آنےوالےپہلےبڑے سیلاب نےہزاروں زندگیاں نگل لی تھیں۔اسطرح انیس سوتہتراورانیس سوچھتر میں جو سیلاب آئے تو اس سے صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ شدید ترین متاثرہوئےاورناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ان دونوں صوبوں میں لاکھوں ایکڑ زمین زیرآب آگئی تھی۔ اس طرح انیس بانوے کا سیلاب جسے سپرفلڈ کا نام دیا گیاتھاجودریائےجہلم اورچناب میں طغیانی کے باعث آیا،اس کی اتنی خوفناک تباہی تھی کہ تقریبا ایک ملین یعنی دس لاکھ مکانات تباہ ہوگئے تھے
دوہزاردس کاسیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سےبڑاالمیہ تھا،جس میں دوکروڑافراد متاثراورملک کا بہت بڑا حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا۔ دوہزار چودہ میں دریائے چناب کے ریلوں نےصوبہ پنجاب کو نقصان پہنچایا جبکہ دوہزار بائیس میں ریکارڈ مون سون بارشوں اور دریا میں طغیانی نے تین کروڑ سے زائد افراد کو متاثرکیا اورایک اندازے کے مطابق پاکستانی معیشت کو تیس ارب ڈالر کا ایک بہت بڑا دھچکا لگا تھا۔
بڑے سیلاب اوراس کے نقصانات کا ایک مختصرجائزہ ہم نے لے لیا اب زرا سیلاب کی وجوہات،اس کےقدرتی اور انسانی عوامل پر بھی بات کرتےہیں۔پاکستان میں جولائی سے ستمبر تک مون سون کی شدید بارشیں اسی دوران شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کا تیزی سےپگھلنا،کلاوڈ برسٹ جبکہ نشیبی زمینیں اور دریائی ڈیلٹا یہ سب سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کی اہم ترین وجوہات میں شامل ہیں۔ انسانی عوامل اور انتظامی غفلت کا ذکر کریں تو اس میں سرفہرست جنگلات کی بے دریغ کٹائی، ڈیم اور بیراجز کی کمی، شہروں میں ناقص نکاسیِ آب کا نظام اور سب سے اہم اور خطرناک عوامل میں سے ایک کلائمیٹ چینج موسمیاتی تبدیلی ہے جس نے بارشوں کے پیٹرن کو انتہائی غیرمتوازن کردیا ہے
بھارت کی آبی جارحیت اور اثرات کی بات کریں توانیس سوساٹھ کےسندھ طاس معاہدے کے باوجود بھارت اپنےدریاؤں پرڈیم بناکرپانی روکنےیااچانک بغیر بتائے پانی چھوڑنے کی پاکستان مخالف ریاستی پالیسی پرعمل پیرا ہےجس کے اثرات براہ راست پاکستان پرکبھی خشک سالی اور کبھی سیلاب جیسی صورتحال میں بھگتنا پڑتے ہیں اور یہ اقدامات پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اور وطن عزیز کو پانی کی کمی اور غذائی بحران کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے
سیلاب کے خطرے سے نبردآزماہونے کے لیے حکومت پاکستان کے لیے فوری اور جنگی بنیادوں پر اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں ،
اس موضوع پر بھی بات کرتے ہیں کہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو فوری طور پر اقدامات اٹھانا ہوں گے وہ کیا ہے تو اس میں سب سےاہم ڈیم اور بیراجز کی تعمیر ہے ملک بھر میں فوری طورپرنئےبڑے اورچھوٹے ڈیمزبنائےجائیں تاکہ بارش اور گلیشیئر پگھلنے سےپانی کو محفوظ کیا جا سکے اور بجلی بھی پیدا ہوسکے اسطرح برساتی نالوں اور دریائی کناروں کی مضبوطی اور باقاعدہ صفائی کا سلسلہ شروع کیاجائےاور تیسرے نمبرپراہم پوائنٹ ملک بھر میں جنگلات کی بحالی ہے۔قومی سطح پر تمام صوبوں اور آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان میں بھی شجرکاری مہم چلائی جائے تاکہ بارش کا پانی جذب ہواور زمین مضبوط ہو اور کلائمٹ چینج کے چینلج سے بھی نمٹنے میں مدد ملے اس کے بعد جوتوجہ طلب معاملہ ہے وہ شہری منصوبہ بندی ہے۔ بڑے شہروں کو درپیش بڑا چیلنج اربن فلڈنگ ہے اسے روکنے کے لیے نکاسیِ آب کے جدید نظام کو لاگو کرنا ہوگا۔ اس کے بعد جس اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرنی ہے وہ ارلی وارننگ سسٹم ہے اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعےبروقت پیش گوئی اور عوام کو فوری اطلاع کا عمل یقینی بنایاجاسکے گا۔ فلڈ پروٹیکشن ڈھانچہ اس پرعمل درآمد کرنا ہوگا جس کے تحت حفاظتی بند، ڈائیورژن چینلز اور ریلیف کیمپوں کی ایڈوانس تیاریاں شامل ہیں ۔سب سے اہم اور بنیادی نکتہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور کلائمیٹ چینج کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عوامی شمولیت ہے اور اس سلسلے میں مقامی سطح پر کمیونٹی ٹریننگ، ریسکیو آپریشنز،سوشل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، نصاب میں آگاہی مہم کا سلسلہ شامل کیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی پر قابوپانے کے لیے ملکی سطح پر فوری طورپر کلائمیٹ چینج پالیسی بنائی جائے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کئے جائیں اسی تناظر میں عالمی سطح پر موثر انداز میں مقدمہ لڑنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو درپیش چیلنجز اور نقصانات کے ازالے کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز حاصل کرنے کے لیے ایک ٹھوس اور جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے آخری اور بنیادی نکتہ جس کے گرد پوری کہانی اور المیہ ہے وہ ہے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت، کیونکہ پاکستان میں قومی مسائل پربھی اتفاق رائےکی بجائے سیاست کی جاتی ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے مؤثرانداز میں نمٹنےکےلیےسب سےاہم اوربڑا قدم قومی یکجہتی ہے۔ جب بھی ملک میں ڈیمز، کینالزیا آبی منصوبے بنانےکی بات ہوتی ہے تو صوبائی اختلافات کھل کر سامنے آجاتے ہیں جواسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق، صوبے، پارلیمنٹ، سول اور عسکری ادارے سب ایک پلیٹ فارم پر آئیں۔سیلاب صرف ایک صوبے یا علاقے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ سیلاب یقینا ایک قدرتی آفت ہے، مگراسے تباہ کن انسانی غفلت نے بنادیا ہے۔ ملک میں اگر ڈیمز بنائے جائیں، شجرکاری کی جائے، جدید وارننگ سسٹم اپنایا جائے اور سب سے بڑھ کر قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے تو اس آفت کے نقصانات کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کے لیے یہ ایک امتحان ہے، اور کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب قوم اجتماعی سوچ کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے۔ زرا سوچئیے آج نہیں تو پھر کبھی بھی نہیں۔
حسنین خواجہ شعبہ صحافت سے گزشتہ 25 سال سے وابستہ ہیں جو مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کام کرچکے ہیں اور ان دنوں سما ٹی وی میں بطور کنٹرولر نیوز اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔






















