روس سے تیل خریدنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کے بعد بھارت نے مؤقف جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد روس سے تیل کی درآمد ایک اقتصادی مجبوری تھی،جبکہ امریکہ اور یورپی یونین خود بھی بڑی سطح پر روس کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں۔
بھارت کی جانب سے جاری کئے گئے مؤقف میں کہا گیا ہے کہ بھارت اپنے قومی مفاد اور اقتصادی تحفظ کے لیے جو بھی ضروری ہوا، وہ قدم اٹھائے گا۔ کسی بھی بڑی معیشت کی طرح بھارت بھی عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے اور کسی کے دباؤ میں آکر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد یورپ نے روسی توانائی کا روایتی سامان اپنے لیے محفوظ کر لیا، جس پر بھارت کو متبادل انتظام کرنا پڑا ہے اس وقت امریکہ نے خود بھارت کی جانب سے روسی تیل خریدنے کی حمایت کی تاکہ توانائی کی عالمی منڈی مستحکم رہ سکے۔
بھارت نے واضح کیا کہ ان درآمدات کا مقصد صرف سستی اور قابلِ بھروسہ توانائی کا حصول ہے تاکہ ملکی صارفین متاثر نہ ہوں، جبکہ بھارت پر تنقید کرنے والے ممالک خود روس کے ساتھ توانائی، کیمیکلز، مشینری، کھاد اور دیگر اشیاء کی تجارت کر رہے ہیں۔
Statement by Official Spokesperson⬇️
— Randhir Jaiswal (@MEAIndia) August 4, 2025
🔗 https://t.co/O2hJTOZBby pic.twitter.com/RTQ2beJC0W
حکام کے مطابق 2024 میں یورپی یونین کی روس سے 67.5 بلین یورو کی باہمی تجارت ہوئی، جبکہ ان کی خدمات کی مد میں 17.2 بلین یورو کی مزید تجارت کی گئی۔ یورپی ممالک نے روس سے ایل این جی کی درآمدات بھی ریکارڈ 16.5 ملین ٹن تک پہنچا دیں، جو ماضی کی سطح سے بھی زیادہ ہے۔
بھارتی حکام نے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا کہ ایسے میں صرف بھارت کو نشانہ بنانا بلاجواز اور دوہرا معیار ہے۔ امریکہ بھی روس سے یورینیم، پیلیڈیم، کیمیکلز اور کھادیں خرید رہا ہے، لیکن بھارت پر تنقید کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر دعویٰ کیا تھا کہ بھارت روسی تیل صرف خرید ہی نہیں رہا بلکہ اسے منافع کے لیے دوبارہ فروخت بھی کر رہا ہے اور اسے پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی بمباری سے کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے بھارت پر مزید ٹیرف لگانے کی بھی دھمکی دی تھی۔





















