پنجاب کی نگران حکومت نے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر رپورٹ جاری کردی، جس میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناع کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شوگر ملز اور سٹہ باز 100 روپے فی کلو اضافی قیمت وصول کررہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے حکم امتناع ختم کرانے کیلئے فوری اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیرصدارت چینی کی قیمتوں سے متعلق اجلاس ہوا، پنجاب حکومت نے چینی کے حوالے سے اسٹے آرڈرز ختم کرانے کے حوالے سے فوری اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اجلاس میں بریفنگ کے دوران سیکریٹری خوراک نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے اسٹے آرڈرز کے باعث شوگر ملز کا ریکارڈ نہیں حاصل کر پارہے، اسٹے آرڈرز کے باعث چینی کے ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو اپیل دائر کرنے کے حوالے سے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ چینی کی قیمتوں میں استحکام اور اسٹے آرڈرز خارج کروانے کیلئے فوری اپیل دائر کی جائے۔
نگران حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناع ہے، چینی قیمتوں پر حکم امتناع نے قیمتوں میں اضافے کی راہ ہموار کی، شوگر ملز کے تمام کیس مخصوص عدالت میں چلائے جاتے ہیں، شوگر ملز اور سٹہ باز 100 روپے فی کلو اضافی قیمت وصول کر رہے ہیں، قیاس آرائیاں کرنے والوں نے مہنگی چینی بیچ کر عوام سے 55 سے 56 ارب روپے ہتھیائے۔
چینی کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزہ اور گرانفروشی سے متعلق پنجاب حکومت کو تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے، شوگر ملز، بروکرز اور سٹہ بازوں کے ذریعے ناجائز منافع کمایا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب کابینہ نے کین کمشنرز کو چینی کی قیمت کے تعین کا اختیار دیا تھا، کین کمشنر نے ایکس مل قیمت کے تعین کا عمل شروع کیا، کرشنگ سیزن کے دوران ملک میں کل 7.7 ملین میٹرک ٹن چینی پیدا ہوئی، 5 ملین میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ پنجاب میں تھا، پنجاب کے ذخائر مربوط خطے کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4 مئی 2023ء کو جسٹس شاہد کریم نے اس اعتراض پر کہ قیمتوں کے تعین کا موضوع صوبائی ہے، اگلی تاریخ 20 ستمبر مقرر کردی، کسی نہ کسی بہانے اسٹے آرڈر کی تاریخوں میں توسیع کی جارہی ہے۔
نگران پنجاب حکومت کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی حکام چینی کی افغانستان میں اسمگلنگ کو روکنے سے قاصر ہیں، اسمگلنگ نے ملک اور بالخصوص پنجاب میں چینی کے اسٹریٹیجک ذخائر کو ختم کردیا ہے، یہ ذخائر آنے والے سال میں چینی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گنے کی فصل کی کاشت میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، اگلے سال پاکستان کو چینی کی درآمد پر خاطر خواہ زرمبادلہ خرچ کرنا پڑسکتا ہے۔
رپورٹ کے متن کے مطابق شوگر ملز اور بروکرز کا گٹھ جوڑ قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار ہے، عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملز نے چینی افغانستان اسمگل کرنا شروع کردی، چینی کی قیمتیں بروکرز مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے بڑھاتے ہیں، چینی کی صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی کی قیمت بڑھنے کا خدشہ ہے، حکم امتناع کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ملک اور صوبہ مزید بحران کا شکار ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق قیاس آرائی کرنیوالوں نے چینی مارکیٹ میں تقریباً تباہی مچا رکھی ہے، ہر مل میں 5، 6 بروکر ہوتے ہیں جو ڈیلرز کو چینی فروخت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں چینی 180 جبکہ چھوٹے شہروں میں 200 سے زائد قیمت پر فروخت ہورہی ہے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس انوار حسین نے چینی کی قیمتیں مقرر کرنے کے اقدام کے خلاف نجی شوگر ملز کی درخواست پر سماعت کی اور فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ارسال کردی۔
شوگر ملز کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو چینی کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے، قانون کے برعکس چینی کی قیمتیں مقررکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت وفاقی حکومت کو چینی کی قیمتیں مقرر کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
دوران سماعت عدالت نے چیف جسٹس کو فائل ارسال کردی اور قرار دیا کہ اس نوعیت کی درخواستیں کسی اور بینچ میں زیر سماعت ہیں، اس درخواست کو بھی دوسری عدالت میں سماعت کیلئے ارسال کیا جائے۔