پاکستان اس وقت شدید مون سون بارشوں اور اچانک سیلابی کیفیت سے نبرد آزما ہے۔ سڑکیں ندی نالے بن چکی ہیں، درجنوں اموات ہو چکی ہیں، اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ پنجاب سمیت کوئی صوبہ محفوظ نہیں ، مگر اصل خطرہ صرف بارش نہیں، وہ ماحولیاتی بےحسی اور حکومتی ترجیحات کی خرابی ہے جو ان آفات کو جنم دے رہی ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق، اگر پاکستان نے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو 2050 تک صرف اس تغافل کی لاگت 1.2 کھرب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔ بدقسمتی سے، رواں سال کے وفاقی بجٹ نے اس خطرے کو مزید نظرانداز کر دیا ہے، وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا بجٹ 3.5 ارب سے کم کر کے 2.7 ارب کر دیا گیا، ماحولیاتی تحفظ کی فنڈنگ بھی آدھی کر دی گئی ، 7.2 ارب سے گھٹا کر 3.1 ارب۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کسی قسم کا بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔ جنگلات کی کٹائی، ندی نالوں پر قبضے، غیر منصوبہ بند تعمیرات، ناقص انفراسٹرکچر اور ادارہ جاتی نااہلی نے فطری نعمت کو انسانی المیہ بنا دیا ہے۔ NDMA اور PDMA جیسے ادارے موجود ضرور ہیں، مگر نہ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے، نہ وسائل، نہ سیاسی سپورٹ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال مون سون کی بارشیں ہمیں تباہی کے ایک نئے دائرے میں دھکیل دیتی ہیں اور ہم صرف اموات گنتے رہ جاتے ہیں، بغیر کچھ سیکھے، بغیر کچھ بدلے۔
ماحولیاتی تبدیلی اب محض موسمی اتار چڑھاؤ کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ انسان کے بنیادی حقوق، ریاستی ذمہ داریوں، اور ہمارے اجتماعی مستقبل کا سوال بن چکا ہے۔یہ بات کسی ماہرِ ماحولیات یا سماجی کارکن نے نہیں، بلکہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس منصور علی شاہ نے کہی ہے، اسلام آباد میں ماحولیاتی تبدیلی پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو انتباہ جاری کیا، وہ دراصل ایک قومی آئینہ ہے اور ایک اجتماعی سوال بھی، جو ہم سب کو دیکھنا، سننا اور سمجھنا ہوگا۔جسٹس منصور علی شاہ نے واضح کیا کہ 2022 جیسے سیلاب، غیر معمولی درجہ حرارت، آسمانی بجلی اور موسم کی شدت یہ سب اب موسمی معمولات نہیں، بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان اثرات نے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اور بدقسمتی سے، ہمارا ملک کلائمیٹ سائنس کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان میں این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے جیسے ادارے تو موجود ہیں، لیکن یہ ادارے تنہا، غیر مربوط، اور پالیسی کی پشت پناہی کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ جاتی تنہائی صرف ان کی ناکامی نہیں، بلکہ ریاست کی ترجیحات کی کمزوری کا مظہر ہے۔
جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا جج یہ کہے کہ ماحولیاتی تبدیلی "بنیادی انسانی حقوق" کو متاثر کر رہی ہے، تو یہ صرف ماحولیاتی یا سائنسی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ آئینی، قانونی، اخلاقی اور پالیسی سطح پر سنگین چیلنج بن جاتا ہے۔صاف پانی، صحت مند زندگی، پناہ گاہ، تعلیم اور سانس لینے کے حق جیسے بنیادی حقوق براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی حفاظت ریاستی ذمہ داری ہے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان ماحولیاتی انصاف کو صرف نعرے یا پالیسی دستاویزات میں نہ رکھے، بلکہ مستقل اور بااختیار ماحولیاتی عدالتیں (Climate Courts) قائم کرے۔یہ عدالتیں ایسے تمام مقدمات سنیں جوماحولیاتی غفلت، جنگلات کی کٹائی یا آلودگی سے متعلق ہوں،مقامی سطح پر ماحولیاتی حقوق کی پامالی پر متعلقہ اداروں کو جوابدہ بنائیں اور ماحولیاتی پالیسیوں پر عملدرآمد کو قانونی دائرے میں لائیں۔
این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، اور موسمیاتی وزارت جیسے ادارے موجود تو ہیں، لیکن نہ ان کے درمیان ربط ہے، نہ مستقل مزاجی، جب چیف جسٹس یہ کہہ رہے ہوں کہ ادارے تنہا کام کر رہے ہیں تو یہ پکار ہے کہ ہمیں بین الادارئی ہم آہنگی اور ایک قومی کلائمیٹ وژن کی ضرورت ہے،ہمیں ایک ایسی مربوط پالیسی چاہیے جو سائنسی تحقیق، قانون، تعلیم، مقامی حل، اور عالمی اخلاقی دباؤ سب کو یکجا کرے۔
جرمن واچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان 2022 میں دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملک رہا ہے۔جب کہ ہمارا عالمی اخراج میں حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے، ہم ہی وہ ملک ہیں جو سب سے زیادہ سیلاب، گرمی، سموگ، پانی کی قلت اور زرخیز زمینوں کے زیاں سے دوچار ہیں۔یہ صرف عالمی ناانصافی نہیں بلکہ ہمارے ہاں پالیسی کی غیر سنجیدگی کی نشانی بھی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی صرف موسم کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ زندگی، قانون اور نسلوں کا مسئلہ ہے،عدلیہ خبردار کر چکی ہے، اب باقی ریاستی اداروں کو حرکت میں آنا ہوگا،ماحولیاتی تعلیم، کلائمیٹ ریسرچ، اور قانونی ڈھانچہ تینوں کو ہنگامی بنیادوں پر اپڈیٹ کرنا ہوگا۔
اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کو اب بھی پالیسی کی ترجیح نہ بنایا، تو نقصانات کا دائرہ صرف معیشت یا ماحول تک محدود نہیں رہے گا ، یہ ہماری روزمرہ زندگی، صحت، تعلیم، خوراک اور مستقبل کو بھی متاثر کرے گا۔قائم مقام چیف جسٹس کا بیان صرف ایک وارننگ نہیں، ایک موقع بھی ہے کہ ہم پالیسی، قانون اور ادارہ جاتی حکمتِ عملی کو نئے سرے سے ترتیب دیں۔جب دنیا ہمیں سب سے زیادہ متاثرہ ملک مان چکی ہے، تو ہمیں بھی اپنی ترجیحات اسی حقیقت کے مطابق طے کرنی ہوں گی۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















