حکومت سندھ نے 15 جون سے ہر قسم کی نان،بائیوڈیگریڈیبل اور اوکسو ڈیگریڈیبل پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کی ہے۔ اس سے قبل چاربار پابندیاں لگیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے سے وہ ناکام رہیں۔ محکمہ ماحولیات کے تحت کچھ سخت اقدامات تو ہورہے ہیں لیکن پابندی پر موثرعملدرآمد کیلئے عوام کی شرکت انتہائی ضروری ہے۔پلاسٹک بیگ کا آغاز کیسے ہوا،1960ء کی دہائی کے اوائل میں سوئیڈش انجینئر سٹین گسٹاف تھولن نے جدید ہلکا پھلکا شاپنگ بیگ ایجاد کیا۔اس نے سویڈن کی پیکیجنگ کمپنی کیلئے پلاسٹک کی فلیٹ ٹیوب کو تہہ، ویلڈنگ اور ڈائی کاٹ کر ایک سادہ ون پیس بیگ بنانے کاکامیاب تجربہ کیا۔ تھولن کے ڈیزائن نے ایک سادہ مگر مضبوط بیگ تیار کیا جس میں زیادہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت تھی اور اسے 1965 ء میں کمپنی نے دنیا بھر میں پیٹنٹ کیا تھا جس کے بعد پلاسٹک تھیلیاں جلد ہی دنیا بھر میں عام ہو گئیں۔ ترقی پذیر ممالک، بشمول پاکستان میں ان کا استعمال 1980ء کے بعد اس قدر بڑھا کہ مارکیٹ، دکان، ٹھیلا یا گھر ہر جگہ یہ لازم و ملزوم ہو گئیں۔ایک زمانہ تھا جب پلاسٹک بیگز کا استعمال عام نہیں تھا،شہری سٹین لیس اسٹیل یا المونیم کا ڈول پکڑے گھر سے دودھ دہی لینے نکلتے۔ بازار سے کھانا لانے کیلئے ہاٹ پاٹ استعمال ہوتا۔ تندور سے روٹی، پھل اور سبزی لانے کیلئے گھر سے کپڑے کا تھیلا ساتھ لے جانا معمول تھا۔
یہ طوفان کیوں آیا؟
کم قیمت، ہر جگہ دستیابی اور مفت تھیلی کا تصور اس طوفانی استعمال کی بنیادی وجوہات ہیں۔ دکانداروں کیلئے یہ سستا حل ہے اور صارفین کیلئے یہ ایک عادت بن گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً 5 ٹریلین پلاسٹک بیگز استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 55 ارب کے قریب پلاسٹک بیگز تیار ہوتے ہیں، سندھ میں روزانہ 2سے ڈھائی کروڑتھیلیاں استعمال ہوتی ہیں۔1990ء کے بعد تحقیق سے پتا چلا کہ پلاسٹک گلتا نہیں بلکہ سینکڑوں سال زمین یا پانی میں رہ کر ماحول اور جان داروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ تھیلیاں زمین، پانی، ہوا اور حتیٰ کہ خوراک میں شامل ہو کر انسانی صحت کو متاثر کر رہی ہیں۔پلاسٹک کی تھیلیاں سیوریج لائنوں کو بند کر کے اربن فلڈنگ کا سبب بنتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کے ذرات فضاء میں شامل ہو کر سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک انسان سالانہ اوسطاً ایک کریڈٹ کارڈ جتنی مقدار میں پلاسٹک نگل رہا ہے۔یورپ، کینیڈا سمیت بعض ممالک نے پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی لگا دی یا سخت ٹیکس لگا کر اس کے استعمال کو محدود کیا۔ ان ممالک میں کپڑے، کاغذ اور ری-یوز ایبل بیگز کا استعمال عام ہو چکا ہے۔
سندھ میں پہلی بار صرف کالی پلاسٹک کی تھیلیوں پر 1998ء میں پابندی لگائی گئی مگر اس وقت کسی قانون کا حوالہ دئیے بغیر لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ نے نوٹفکیشن جاری کیا تھا جس پر عملدرآمد کیلئے کوئی رہنما خطوط وضع نہیں کئے گئے، وہ پابندی کچھ عرصہ رہی اس کے بعد دکانوں پر دوبارہ کالی پلاسٹک تھیلیوں میں سامان فروخت ہونے لگا۔دوسری بار 2004ء میں پلاسٹک کی پتلی اور چھوٹی تھیلیوں پر پابندی تو لگی مگراس کیلئے قواعد نہیں بنائے جاسکے۔ پلاسٹک کی تھلیاں بنانے والوں نے بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے کارخانے بند ہوجانے کے بعد بے روزگار ہونے والے ہزاروں ورکرز کو متبادل روزگار کون فراہم کرے گا اور یوں دوسری بار بھی پابندی بے اثر ہوکر رہ گئی۔سال 2014ء میں جب پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کے قواعد جاری کئے گئے تب بھی اُ ن پر عملدرآمد کی کوشش تو کی گئی مگر اُس وقت پابندی پر عملدرآمد کا طریقہ کار وضع نہ ہونے کے باعث چند ماہ میں معاملہ سردخانے کی نذرہوگیا۔ پلاسٹک کی تھیلیوں پر بندش کی پہلی سنجیدہ کوشش 2019ء میں اس وقت کے مشیر ماحولیات مرتضیٰ وہاب کے دور میں ہوئی اور کچھ کامیاب بھی رہی مگرپھر کورونا کی وجہ سے پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ روک دی گئی۔ اب پانچویں بارسندھ میں پلاسٹک کی نہ صرف نان ڈیگریڈایبل بلکہ اوکسو ڈیگریڈیبل پلاسٹک کی تھیلیوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن غیر رجسٹرڈ فیکٹریاں، عوامی عادات اور تھیلیوں کے متبادل کپڑے کے بیگ کی قیمت اس پابندی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر صرف فیکٹریاں بند کی گئیں اور عوام کو شامل نہ کیا گیا تو یہ پابندی بھی ماضی کی طرح ناکام ہو سکتی ہے۔ مسئلہ کا حل کیا ہے، ماہرین کہتے ہیں تھیلیوں کے متبادل بیگز کو سبسڈی دے کر عوام کی پہنچ میں لایا جائے،غیر قانونی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی جائے،میڈیا،اسکولز،مساجدکے ذریعے آگاہی مہم چلائی جائے، دکانداروں کے خلاف موثر نگرانی اور سزا کا نظام ہو۔ کپڑے یا کاغذ کے بیگ کا استعمال ایک چھوٹی تبدیلی ہے مگر مستقبل کیلئے ایک بڑی فتح ثابت ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پلاسٹک کے بڑھتے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی، انسانی صحت، آبی حیات کو خطرات، کچرے کے انبار میں اضافہ اور اقتصادی نقصان جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پلاسٹک کوڈی کمپوز بھی نہیں کیا جاسکتا اور سیکڑوں برس تک کوڑے میں دبا رہنے کے باوجود یہ ختم نہیں ہوتا اوریہ مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے۔ یہ آلودگی زرعی پیداوار کو نقصان پہنچاتی ہے اور ہماری غذا کی فراہمی کو متاثر کرتی ہے۔ماحولیاتی ماہرین کہتے ہیں دریاؤں، جھیلوں، اور سمندروں میں پلاسٹک کی موجودگی آبی حیات کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار پلاسٹک کے ذرات خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جو ان کی موت کا سبب بنتے ہیں۔عالمی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 2040 تک خارج ہونے والی 19 فیصد زہریلی گیسوں کا اخراج پلاسٹک کی وجہ سے ہوگا۔ مارچ 2022ء میں 193 ممالک نے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے پر اتفاق کیا تھا۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر سال 43 کروڑ ٹن پلاسٹک مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، ان میں سے دو تہائی مصنوعات کی زندگی مختصر ہوتی ہے جس کے بعد وہ کچرے کا حصہ بن جاتی ہیں۔
پاکستان میں سالانہ تقریباً 3.3 ملین ٹن پلاسٹک فضلہ پیدا ہوتا ہے،ایک انداز ے کے مطابق پلاسٹک انڈسٹری سے16 سے 18 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے، جن میں مزدور، دکاندار، پیکنگ عملہ، ٹرانسپورٹرز اور ری سائیکلنگ ورکرز شامل ہیں۔اس صنعت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، جس کا فوری نقصان ملکی معیشت کے لیے شدید دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، پلاسٹک پر فوری پابندی کے بجائے ایک متوازن اور تدریجی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے۔ ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جوماحولیاتی آلودگی پر قابو پاتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری سے بچائے۔متبادل بایو ڈیگریڈیبل مصنوعات کی تیاری اور فروغ، پلاسٹک انڈسٹری کے کارکنوں کیلئے نئی مہارتوں کی تربیت، گرین انڈسٹری میں سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ شراکت داری جیسے اقدامات شامل ہیں۔دنیا کے کئی ممالک جیسے روانڈا، کینیا،کولمبیا اور یورپ کی مثالیں سامنے ہیں جہاں پالیسی، قانون سازی اور عمل درآمد سے پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پایا گیا اور متبادل روزگار بھی فراہم کیا گیا۔
آل سٹی تاجر اتحاد کے رہنما شرجیل گوپلانی کہتے ہیں حکومت کی کوششوں کی باوجود شاپنگ بیگز کا متبادل موجود نہیں، کراچی میں روزانہ پندرہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اس میں شاپنگ بیگز کی تعداد 3 ہزار ٹن بھی نہیں ہے، شاپنگ بیگز انڈسٹری بند ہونے سے ماحولیات کے مسائل بڑھ جائیں گے کیونکہ انڈسٹری کا کچرا ہم خریدتے ہیں اور پھرری سائیکلنگ کرتے ہیں۔ پلاسٹک بیگز انڈسٹری 12 لاکھ ٹن کچرے کو خریدتی ہے۔ صدر پلاسٹک بیگز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ندیم خان کے مطابق، سیکرٹری ماحولیات نے کہاتھا یہ پابندی صرف کیری بیگ پر ہوگی۔پیکنگ میٹریل کو پابندی سے استثنیٰ تھا مگر کاروائیوں کے دوران ہر قسم کی تھیلی پر ایکشن لیا جارہا ہے۔80ء کی دہائی سے شاپنگ بیگز کا استعمال شروع ہوا اس وقت حکومت نے اس کو پروموٹ کیاتھا۔میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے جب اس حوالے سے بات کی گئی تو ان کا دوٹوک موقف تھا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ چند لوگوں کے مفاد میں قوم کا نقصان کیاجائے،بزنس مینوں کو چاہئے وہ اپنے کام کو ٹرانسفارم کریں، پہلے فیز میں دکانوں سے صرف پلاسٹک بیگز اٹھائیں گے، دوسرے فیز میں اگر کسی کے پاس پلاسٹک بیگز نظر آئے تو ان دکانداروں پر جرمانہ کیا جائے گا۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















