سپریم کورٹ نے انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی ( آئی ایس آئی ) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید کیخلاف زمین پر مبینہ قبضے کے حوالے سے دائر کردہ درخواست نمٹا دی۔
سپریم کورٹ میں لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید کیخلاف زمین پر مبینہ قبضے کے الزام میں ہیومن رائٹس کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران معیز احمد نامی درخواستگزار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ 2017 میں فیض حمید کے حکم پر انکے گھر اور آفس پر ریڈ کیا گیا اور اس غیر قانونی کارروائی کا مقصد ہاوسنگ پراجیکٹ کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔
درخواستگزار کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ فیض حمید کے خلاف شواہد پیش کرنے کی اجازت دے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواستگزار سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اپنی درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کےذریعے پیروی کریں گے ؟ جس پر درخواستگزار نے بتایا کہ ایک روز قبل ہی وکیل کیا کہ سماعت مختصر عرصے کے لیے ملتوی کر دیں۔
چیف جسٹس نے التوا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ التوا نہیں دیں گے ابھی ہی تیاری کر لیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے حکومت اور کچھ شخصیات پر الزامات لگائے ہیں، کیا یہ 184 تین کا مقدمہ بنتا ہے؟، جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق کو سمجھیں، ہیومن رائٹس سیل کا کوئی قانونی اختیار ہے نہ ہی حیثیت ہے، سیل ناانصافی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی بھی چیف جسٹس ایسی کوئی کارروائی نہیں کرسکتا جو عدالتی نوعیت کی نہ ہو، بدقسمتی سے 2010ء سے سپریم کورٹ کے نام پر ایچ آر سیل خط لکھ رہا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولز کے مطابق موجودہ کیس کہاں فٹ آتی ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق کوئی چیف جسٹس یا جج چیمبر میں کارروائی نہیں کرسکتا، رولز میں چیمبر سماعت صرف رجسٹرار اعتراضات کیخلاف اپیلوں پر ممکن ہے۔
بعدازاں ، سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست نمٹا دی گئی اور عدالت عظمیٰ نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس کارروائی کیلئے متعلقہ فورمز موجود ہیں، عدالت کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں انسانی حقوق کے کیسز کی ہونے والی ان چیمبر سماعت کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ان چیمبر کوئی بھی کیس صرف سماعت کے لیے فکس کیا جاسکتا ہے،چیف جسٹس ان چیمبر کسی کیس کا کوئی حکمنامہ جاری نہیں کرسکتے۔
عدالت عظمیٰ نے درخوست گزار کو دیگر فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ آرمی افسر کے خلاف وزارت دفاع میں جانے کا آپشن موجود ہے۔