کبھی کہا جاتا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ دس ممالک میں شامل ہے۔ یہ جملہ برسوں سے خبروں، رپورٹس اور پالیسی دستاویزات میں دہرایا جاتا رہا۔ مگرجرمن واچ کی حالیہ رپورٹ "ماحولیاتی رسک انڈیکس 2025 “ نے اس بیانیے کو یکسر بدل دیا ہے ۔اب پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار پا چکا ہے۔ جی ہاں نمبر ون۔یہ درجہ بندی محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے نہ صرف تسلیم کرنا ضروری ہے بلکہ اس پر فوری عمل بھی لازم ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جب خاموش رہنا، وقت کو نظرانداز کرنا، یا مسائل کو تقدیر سمجھنا ایک اجتماعی جرم بن چکا ہے۔ہم اب جس مرحلے پر ہیں، وہاں پانی، ہوا، موسم اور زندگی سب غیر متوازن ہو چکے ہیں۔ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، ہیٹ ویوز جان لیوا ہو چکی ہیں، آسمانی بجلی انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے، اور بارش کبھی خوشی کی علامت تھی، اب تباہی کا پیغام بننے لگی ہے جسکی تازہ مثالیں اسلام آباد اور کے پی میں حالیہ بارش اور ژالہ باری ہے۔
ہم مجرم نہیں، مگر سزا ہمیں مل رہی ہے!پاکستان دنیا کے مجموعی گرین ہاؤس گیس اخراج میں صرف 0.8 فیصد کا حصہ دار ہے یعنی ہم اس بحران کے ذمہ دار نہیں لیکن عالمی ماحولیاتی تباہی کے سب سے زیادہ اثرات ہم پر پڑ رہے ہیں۔یہ صرف ستم ظریفی نہیں بلکہ ایک عالمی اخلاقی بحران ہے، جہاں ترقی یافتہ ممالک کے فیصلوں کا بوجھ ترقی پذیر اقوام پر پڑ رہا ہے۔گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں ہم ہیٹ ویوز، فلڈز، خشک سالی، سموگ، پانی کی قلت، اور زرخیز زمینوں کی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں جب کہ ہمارا کردار ان وجوہات میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ صورتحال محض ایک رپورٹ یا درجہ بندی کا معاملہ نہیں۔ یہ دراصل ایک کڑا انتباہ ہے ایک الارم، جو ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ اگر اب بھی ہم نے سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔اب وقت ہے کہ ہم دکھ، تجزیے اور سوشل میڈیا کی پوسٹس سے آگے بڑھ کر ٹھوس عملی اقدامات کی طرف آئیں۔ یہ صرف حکومت یا کسی ایک ادارے کا کام نہیں بلکہ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔اور اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے ہمیں کم از کم چھ محاذوں پر فوری توجہ دینی ہوگی:
پہلا قدم: بیانیہ بدلیں، حقیقت تسلیم کریں!
اب یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔اب یہ کہنا ہوگا کہ ہم سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہیں۔
یہ جملہ ہر پریس کانفرنس، پالیسی دستاویز، نصاب، میڈیا رپورٹ اور عوامی مکالمے میں شامل ہونا چاہیے۔جب تک بیانیہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا، پالیسی اور عمل بھی سطحی ہی رہیں گے۔
دوسرا قدم: عوام کو بدلتے موسم سے جینے کا ہنر سکھائیں
اب یہ وقت نہیں کہ صرف حکومت سے شکوہ کیا جائے۔عام شہری کو یہ سیکھانا ہوگا کہ:ہیٹ ویوز میں خود کو کیسے محفوظ رکھیں،آندھی، ژالہ باری، یا آسمانی بجلی سے بچنے کے طریقے کیا ہیں،پانی کا تحفظ کیسے کیا جائے،مکان، دفتر یا اسکول کی تعمیر میں موسمیاتی مطابقت کو کیسے شامل کیا جائے،یہ معلومات اب "ایڈوانسڈ نالج" نہیں بلکہ بنیادی ضرورت بن چکی ہیں۔
تیسرا قدم: عالمی سطح پر مؤثر اور جرات مند آواز بلند کریں
اب وقت ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں سے یہ سوال کرے:جب ہم ذمہ دار نہیں، تو نقصان کیوں اٹھائیں؟،ہمیں قرض نہیں، ازالہ چاہیے۔"Debt نہیں، Damages دو" یہ مطالبہ ہمیں بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پوری شدت کے ساتھ دہرانا ہوگا۔پاکستان کو اب موسمیاتی انصاف کے لیے قانونی، سفارتی اور اخلاقی دلائل کے ساتھ عالمی برادری کو جھنجھوڑنا ہوگا۔
چوتھا قدم: ماحولیاتی ایجنڈے کو قومی سیاست کا حصہ بنائیں
آج بھی ہماری سیاست میں ماحولیاتی تبدیلی کوئی موضوع نہیں۔
سیاسی جماعتیں ووٹر کو روزگار، مہنگائی اور امن و امان کے وعدے دیتی ہیں، مگر موسم کی شدت، پانی کی قلت، ہوا کے زہر، اور زمین کی تباہی پر خاموش ہیں۔اب وقت ہے کہ ہر سیاسی جماعت سے یہ سوال کیا جائے:
آپ کی کلائمیٹ پالیسی کیا ہے؟درخت کاٹنے کے خلاف آپ کیا کریں گے؟شہروں میں سموگ کو روکنے کا کیا منصوبہ ہے؟
زرعی شعبے کو کس طرح موسمیاتی تبدیلی کے مطابق بنائیں گے؟جب ووٹر ماحولیاتی تبدیلی کو ووٹ کی بنیاد بنائے گا، تب ہی سیاستدان بھی سنجیدہ ہوں گے۔
پانچواں قدم: نوجوانوں کو تحقیق، قیادت اور جدت کے لیے تیار کریں
پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے نوجوان ہیں، اور سب سے بڑی آزمائش موسمیاتی بحران۔یونیورسٹیوں، تھنک ٹینکس، اور تحقیقاتی اداروں کو کلائمیٹ فنانسنگ، ایڈاپٹیشن، اور لوکل سلوشنز پر کام کرنے کے لیے مواقع دیے جائیں،سائنس، ٹیکنالوجی، اور مقامی علم کو یکجا کر کے ہمیں پاکستانی حل، پاکستانی حالات کے مطابق تیار کرنے ہوں گے۔
چھٹا قدم: مقامی مسئلے، مقامی زبان اور مقامی حل
پاکستان میں ماحولیاتی خطرات ہر علاقے میں الگ نوعیت کے ہیں۔تھر میں خشک سالی ہے، چترال میں گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، لاہور میں سموگ ہے، کراچی میں سمندری چڑھاؤ ہے۔لہٰذا ہر علاقے کے لیے الگ پالیسی، الگ تربیت، اور الگ آگاہی مہم ہونی چاہیے اور یہ سب مقامی زبان میں ہو۔
اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا، تو آنے والے دن ہمیں سزا نہیں، پچھتاوے دیں گے — ایسا پچھتاوا جو نسلوں تک گونجے گا۔
جرمن واچ کی رپورٹ نے ہمیں آئینہ دکھا دیا ہے پاکستان اب ماحولیاتی خطرات کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے، تو لازم ہے کہ ہماری قومی ترجیحات میں بھی یہ مسئلہ پہلے نمبر پر ہو۔اب ہمیں اپنے بیانیے کو خیرات، ہمدردی یا امداد سے نکال کر انصاف، حق اور بقا کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ہمیں کہنا ہوگا کہ اب ہمیں خیرات نہیں، ماحولیاتی انصاف چاہیے!
ہم ذمہ دار نہیں، مگر سب سے زیادہ متاثر ضرور ہیں اور اب ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہیئے ۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















