سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد میں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
سماعت کا آغاز
اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور اعوان نے سماعت کے آغاز پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پڑھا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی؟ ، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائےگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تویہ کمیٹی ٹی او آرزآنکھوں میں دھول کےمترادف ہے۔
ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں ، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کمیٹی کس نے قائم کی؟ ، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی وفاقی حکومت نے قائم کی ، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ کی منظوری لی گئی؟، کیا یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کی گئی؟۔
کمیٹی پھر غیر قانونی ہے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہیں ہوا تو کمیٹی تشکیل کا یہ نوٹیفکیشن کاغذ کا ٹکڑا ہے، یہ کمیٹی پھر غیر قانونی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کیوں نہیں کروائیں ؟، فرض کیا ابصارعالم کوکمیٹی بلاتی ہے اور وہ پیش نہیں ہوتے توآپ کیا کریں گے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن کے پاس تو اختیارات ہوتے ہیں، ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں، آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یا آپ ٹھیک طریقے سے کام کریں یا کہیں ہم نہیں کرتے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم کام کریں گے۔
آئین کی بالادستی کسی بھی قیمت پر یقینی بنانا ہوگی
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی بالادستی کسی بھی قیمت پر یقینی بنانا ہوگی جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی پر اثرات ہوں گے تو باقی بھی سوچیں گے کہ کچھ غلط کیا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آنی چاہیے پہلے سب نے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیوں دائرکی ، آپکے پاس موقع ہے کسی ایسے شخص سے انکوائری کروائیں جو آئین کو مقدم رکھتا ہو، یہ آپ کی مرضی ہے کہ انکوائری کیلئے جس کو مرضی تعینات کریں، ابصارعالم کے بیان کے مطابق تو الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے چیئرمین پیمرا کو بھی طلب کیا گیا۔
کینیڈا سے سبق سیکھیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی کینیڈا جا کر فساد کر کے واپس پاکستان آسکتا ہے، کیا یہ حق صرف کینیڈا سے آنے والوں کو حاصل ہے، انہیں کون لے کر آیا تھا؟، کینیڈا سے سبق سیکھیں انہوں نے ایک شخص کے قتل پر بڑے ملک سے ٹکر لے لی، کینیڈا واپس چلےگئے تو بتائیں جس کام کیلئے آئے تھے کیا وہ حل ہو گیا ؟۔
اسلام امن کا دین ہے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اسلام امن کا دین ہے وہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں، کیا وہ اسلام کی بات کر رہے تھے تو کیا سب ان سے ڈر جاتے، ایک مسلمان کوڈرنا نہیں چاہیے فساد فی الارض کی گنجائش نہیں ہے،
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک لینڈ مارک فیصلہ تھا جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے مطابق تو وہ ایک سادہ سا فیصلہ تھا، اس وقت اچھی یا بری جیسی بھی حکومت تھی عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی، کوئی غلط قانون بن گیا تو اسپیکر کو خط لکھ دیتے یہ آپ سے غلطی ہو گئی۔
چیئرمین پیمرا سلیم بیگ
سماعت کے دوران چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت میں پیش ہوئے تو انہیں روسٹرم پر بلا لیا گیا اور چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین ابصارعالم نےایک بیان حلفی دیا ہے، ہمیں تعجب ہوا آپکے وکیل نے کہا وہ بیان پڑھا نہیں جس پر چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ابصارعالم نے جو کہا وہ انہیں کے ساتھ ہوا ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کے ساتھ یہ کبھی نہیں ہوا؟، جس پر سلیم لیگ نے بتایا کہ میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ذاتی طور پر پتہ ہے کہ بیان حلفی میں کیا کہا گیا ؟، جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ خاص پتہ نہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کب سےچیئرمین پیمرا ہیں اور کس محکمہ سے آئے ہیں ؟، انہوں نے بتایا کہ میں 2018 سے چیئرمین پیمرا ہوں اور وزارت اطلاعات سےآیا تھا۔
پیمرا وکیل نے جو کہا وہ زیب نہیں دیتا
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اس لیے بلایا کہ پیمرا وکیل نے جو کہا وہ زیب نہیں دیتا، یہ آپکے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے پتہ کرنا ہوتا ہے کہ عدالت میں کیا آیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 19 پڑھنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہ آرٹیکل خود بتاتا ہے کیا کیا معاملات آزادی اظہار رائے میں شامل نہیں، کوئی چینل اگر جلاؤ گھیراؤ پر بھڑکائے تو وہ آزادی اظہار نہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل کسی کا گلا دبا دیں مگر یہ آزادی اظہار رائے نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلیم بیگ صاحب آپ اعتراف کر رہے ہیں کہ فیصلے میں جوکچھ لکھا تھا وہ درست تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس فیصلے کے مطابق آپ نے بھی کچھ کرنا تھا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں پیمرا نے اب تک فیصلے کے مطابق کیا کارروائی کی،؟، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیمرا نے 110 صفحات کی عملدرآمد روپورٹ دی اس میں عدالتی احکامات سے متعلق کہاں لکھا ہے، کینٹ علاقوں میں چیلنز کی نشریات روکنے سے متعلق کہاں کارروائی کا لکھا؟۔
چیئرمین پیمرا پر شدید برہمی کا اظہار
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس چیز کے چیئرمین ہیں، ہر ادارہ مذاق بن کے رہ گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ہر بندہ کرسی سے اترنے کے بعد کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے، بتائیں نشریات بند کرنے والے کیبل آپریٹرز کیخلاف کیا کارروائی کی ؟۔
وکیل پیمرا نے وکالت نامہ واپس لے لیا
چیف جسٹس کی برہمی پر وکیل پیمرا نے وکالت نامہ واپس لے لیا اور ایس اے رحمان روسٹرم سے ہٹ گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلیم بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ نےغلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت کتنی ہے جس پر سلیم بیگ نے بتایا کہ 4 سال کی مدت ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر آپ کیسے اب تک بیٹھے ہیں، انہوں نے بتایا کہ دوبارہ تعیناتی کی گئی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ اس وقت عمر 63 سال ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کا کیا مطلب ہے، آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونےمیں کھڑا کردے گا۔
ہم سے غلطی ہوئی نظرثانی درخواست دائر کی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابصار عالم نے لوگوں کا نام لیا آپ میں بھی جرات نہیں، آپ کو کس نے نظرثانی درخواست دینے کا کہا تھا، آپ نے اللہ کو جواب نہیں دینا کیا؟ ایمانداری سے جواب دیں ، جس پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ پیمرا میں فیصلہ ہوا تھا نظرثانی میں جائیں گے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ جواب نہیں دے رہے تو ہم آرڈر کریں گے، آپ ہمت پکڑیں بتا دیں نظرثانی میں جانے کا کس نے کہا تھا، پیمرا میں منظور ی ہوئی تو وہ کہاں ہے ؟۔
چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ منظوری تحریری نہیں زبانی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ زبانی فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے،چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی نظرثانی درخواست دائر کی۔
ڈائریکٹر لاء پیمرا
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ڈائریکٹر لاء پیمرا کو بلایا اور استفسار کیا کہ یہ توسچ نہیں بول رہے آپ ہی بتا دیں نظرثانی کا کس نےکہا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔
چیف جسٹس نے ڈائریکٹر لاء کو ہدایت کی کہ قانون پڑھیں کیا پیمرا میں زبانی فیصلہ ہوسکتا ہے، ہم آپ کو آج آپ کا قانون پڑھائیں گے،ب عدازاں چیف جسٹس نے ڈائریکٹر لا پیمرا سے سیکشن 5 پڑھوائی اورکہا کہ آپ نے یہ پڑھی ہوتی تو یہ نہ کہتے تحریری فیصلے کا کہیں نہیں لکھا۔
کوئی پراسرار قوتیں تھیں جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کروائی
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں نظرثانی کا پتہ ہی نہیں کیسے دائر ہوئی، کوئی پراسرار قوتیں تھیں جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کروائی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرنظرثانی کا تحریری فیصلہ نہیں ہوا توآپکی نظرثانی درخواست وجود ہی نہیں رکھتی، آپ تو پھر صرف ہمارا وقت ضائع کرنے آئے تھے،3 حکومتوں میں آپ چیئرمین پیمرا رہ چکے تینوں آپ سے خوش نہیں، نظرثانی درخواست پر دیکھیں کس کےدستخط ہیں، سلیم بیگ صاحب درخواست پر یہ آپ کے دستخط ہیں، لکھا ہوا ہےآپ نے اپنےاختیارات کا استعمال کر کے اس کی منظوری دی، آپ دوسروں کے کندھوں پر بندوق نہ چلائیں ذمہ داری لیں یہ نظرثانی آپ نے دائر کی، اللہ آپ کو لمبی عمردے آپ کس سے ڈرتے ہیں۔
چیئرمین پیمرا نےجواباً کہا کہ صرف اللہ سے ڈرتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ سے ڈرتے ہیں توہماری عمروں میں کوئی بھی دن آخری ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پر دباؤ نہیں تھا تو اب آپ پر قانون کا دباؤ ہے، ہمارے حتمی آرڈر سے پہلے کچھ اور کہنا چاہتے ہیں،آپ ہمارے ساتھ گیم تو نہ کھیلیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ آپ کے پیچھے کھڑی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ابصارعالم نےاس وقت کے وزیراعظم کو بھی خط لکھا، اس وقت وزیر اعظم نواز شریف تھے، ہر وزیراعظم کرسی سے اتر کر کہتا ہے میں مجبور تھا، جو ابصار عالم نے کیا وہ ہر پبلک آفس ہولڈر کو کرنا چاہیے، ابصارعالم نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی بتایا۔
چیف جسٹس نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو روسٹرم پر بلا لیا
چیف جسٹس نے ابصار عالم کو روسٹرم پر بلا یا اور کہا کہ آپ نے بیان حلفی میں کچھ اور بات لکھی متفرق درخواست میں کچھ اور کہہ رہے ہیں، آپ نے کچھ میڈیا میں موجود عناصر کی بات کی، میڈیا کے اندر کچھ ایسے عناصر تھے تو وہ آپ کے ماتحت تھے، کیا آپ پر میڈیا کے اندر سے بھی حملہ ہو رہا تھا؟، جس پر ابصار عالم نے بتایا کہ میڈیا کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی حملہ ہو رہا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم نے آپ کو خط کا جواب دیا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ وزیر اعظم ہوتے تو کیا کرتے، میں وزیراعظم ہوتا تو آپکوکہتا جو دباؤ ڈال رہے ہیں انکی شناخت کریں اور ایف آئی آر درج کروائیں، وزیر اعظم کوئی پولیس والا تو نہیں ہے نا۔
ہم نے ایک دھمکی آمیز کال ٹیپ کی
ابصار عالم نے بتایا کہ ہم نے ایک دھمکی آمیز کال ٹیپ کی اور وزیراعظم اور آرمی چیف کو بھیجی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اس دھمکی دینے والے کی شناخت کی؟، ابصار عالم نے بتایا کہ میں اس کی ٹھیک سے شناخت نہیں کر سکا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ابصارعالم آپ بہت سنجیدہ معاملہ اس وقت اعلیٰ حکام کے نوٹس لائے، المیہ یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔
ابصار عالم نے بتایا کہ میں نے جو بھی کیا اور جس سے گزرنا پڑا وہ میرا سرمایہ ہے، میرے خلاف مختلف درخواستیں بھی دائر ہوئیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف درخواستیں کیوں دائر ہوئیں تھیں؟، جس پر سابق چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ میری تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا، وہ درخواستیں مجھ پر تلوار کی طرح زیر التوا رکھی گئیں، فیض آباد دھرنے کے فوری بعد لاہور ہائیکورٹ نے ایک درخواست پر مجھےفارغ کر دیا۔
آپ زبانی باتیں نہ کریں
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ زبانی باتیں نہ کریں وہ فیصلہ دکھائیں ،جس پر ابصار عالم نے کہا کہ میں تو اس معاملے کو چلانے میں دلچسپی رکھتا تھا،عدالت نے کہا تو سچ ریکارڈ پر لا رہا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ ایہ نہ کریں یا تو خاموش رہیں اورگھر بیٹھیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں،آپ جب انگلیاں اٹھائیں گےکہ مجھےعدالت نے نہیں بلایا تو بات عدالت پر آئےگی،ہم آپ کے معاملہ پر سوموٹو نہیں لے سکتے،آپ جن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سامنے ہوں گے تو دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا آپ جوکچھ کہہ رہےہیں اس پرآپ کو نکالا گیا؟جس پر ابصار عالم نے ہاں میں جواب دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ابصارعالم آپ نےاس پورے نظام پرسوالات اٹھائے،آپ کےبعد آنےوالےکہتےہیں ان پرکوئی دباؤنہیں تھا،جس پر ابصار عالم کا کہنا تھا کہ یہ خوش قسمت ہیں۔
ابصار عالم نے کلمہ پڑھ کر کہہ دیا میں بیان دوں گا
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے جن پر الزامات لگائے کل انکوائری کمیشن میں بھی دہرائیں گے، جن پر آپ الزامات لگا رہے ہیں انہیں بھی وہاں بلایا جا سکتا ہے، کسی کی پیٹھ پیچھے بات نہیں ہوتی آپ ان کے سامنے یہی بات کریں گے، جس پر ابصار عالم نے کلمہ پڑھ کر کہہ دیا میں بیان دوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ الزام لگا رہے ہیں آپ کو عہدے سے ہٹانےکی درخواست بھی انہی صاحب نے دائر کرائی، ابصار عالم نے بتایا کہ لاہور کے کوئی منیر نامی شہری تھے جنہوں نے اظہرصدیق کے ذریعے درخواست دی، میں سمجھ گیا تھا یہ کہاں سے ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیان حلفی میں جن پر آپ نے الزام لگایا کیا آپ کے مطابق وہی اس کے پیچھےتھے؟، ابصار عالم نے بتایا کہ میرے خلاف درخواست ان کے آنے سے پہلے آچکی تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کو فیض آباد دھرنا فیصلے پر اعتراض ہے؟، ابصار عالم نے بتایا کہ میں اس وقت چیئرمین پیمرا تھا اپنی حد تک صفائی دینا چاہتا تھا۔
چینل کو بند کیا تو فیض حمید نےکال کی
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو فیصلہ کے پیرا گراف دس پر رنجش ہے؟، جس پر ابصار عالم نے کہا کہ تھوڑی سی رنجش ہے، فیصلے میں کہا گیا پیمرا کو لازمی کارروائی کرنی چاہیے، حقیقت یہ ہے ہم نے کارروائی کی تھی، ہم نے ایک نجی چینل کو بند کیا تو اس پر فیض حمید نے کال کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ اس چینل کو کیوں کھلوانا چاہتے تھے؟، ابصار عالم نے بتایا کہ وہ چینل تشدد پھیلا رہا تھا اس لیے کھلوانا چاہتے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں مسلح افواج کا ایک افسر ملک میں تشدد چاہتا تھا، ابصار عالم نے جواباً کہا کہ یہ کہتےہوئے دل لہو ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے وہ یہ ہی چاہتےتھے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپکےساتھ آپ کے جانشین کھڑےہیں انہوں نےنظرثانی کیوں دائر کی، ابصار عالم نے بتایا کہ یہ جانشین نہیں مجھ سے سینئر ہیں جانشین کم عمر ہوتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میری اردو اتنی اچھی نہیں بتائیں انہوں نے نظرثانی کیوں دائرکی؟، جس پر ابصار عالم نے کہا کہ نظرثانی جب دائر ہوئی اس وقت فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے، اپنے تجربے سے بتا رہا ہوں انہیں یا وزارت اطلاعات نے یا پھر کسی انٹیلیجنس ادارے نے کہا ہوگا۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے پوچھا کہ سلیم بیگ صاحب بتائیں پھر دونوں میں سے کس نے کہا؟ آپ ہمیں نہیں بتاتے تو پھر آپ بھی انکوائری کمیشن میں جائیں گے وہ شاید آپ سے سچ اگلوا لیں، گھر میں سے تو کسی نے فرمائش نہیں کی کہ نظرثانی درخواست دائر کریں۔
چیف جسٹس کا مکالمہ
چیف جسٹس نے کہا کہ ابصارصاحب! آپ پر ہی دباؤہوتا تھا ان پرنہیں آتا، جس پر انہوں نے کہا کہ یہ خوش قسمت انسان ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر بدقسمت ٹھہرے جبکہ ابصار عالم نے کہا کہ لیکن میں خوش ہوں۔
شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش
شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے اور بتایا کہ شیخ رشید سے رابطہ نہیں ہو رہا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئے کہ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ میں چلے سے واپس آ گیا ہوں۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ ہم شیخ رشید کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شیخ رشید آپ سے رابطے میں نہیں تو درخواست واپس لینے کا کس نے کہا؟، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے بتایا کہ مجھے شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے ہدایات دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امان اللہ کنرانی اب وزیر ہیں وہ آپ کو ہدایات نہیں دے سکتے، آپ کب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہیں آپ کا لائسنس منسوخ نہ کر دیں، شیخ رشید کا کسی کو پتہ ہے کیا وہ جیل میں ہیں؟ ، شیخ رشید یہاں کیوں نہیں ؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شیخ رشید میڈیا پر آ رہے ہیں جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیا تو یہاں بیٹھا ہوا ہے، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کا ان سے رابطہ نہیں تو درخواست واپس کون لے رہا ہے، ہم اس میں نوٹس جاری کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل
عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن کے وکیل کو روسڑم پر بلایا گیا اور چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ تو ایک آزاد ادارہ ہیں، کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی دائرکی جو اب واپس لینی ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس وقت الیکشن کمیشن کا سربراہ کون تھا؟۔
وکیل نے بتایا کہ سردار رضا اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے۔
ٹی ایل پی ذمہ داروں کے ساتھ حافظ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو ٹی ایل پی ذمہ داروں کے ساتھ حافظ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا اور استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اب عملدرآمد رپورٹ دی ہے اس میں کیا ہے؟ دکھائیں کیا عملدرآمد کیا گیا آج کل وکالت کم اور لفاظی زیادہ ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کیا کہ آپ ایک آئینی ادارے میں انہیں حافظ کیوں کہہ رہے ہیں؟، آپ لوگوں سےمساوی سلوک نہیں کرتے، آپ نے عملدرآمد رپورٹ میں جو کچھ لکھا وہ فیصلے سے پہلے کا ہے، ہمارے فیصلے کے بعد کیا اقدامات لیے وہ بتائیں۔
وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے معاملہ پر کمیٹی بنائی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے تو کارروائی کرنی تھی کمیٹی بنانےکی ضرورت نہیں تھی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے صرف یہ بتانا تھا کہ ایک جماعت بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہوسکتی تھی یا نہیں، جس شخص کے نام پر تحریک لبیک رجسٹرڈ ہوئی اسے کمیٹی میں بلایا یا نہیں، ہاں یا نہ میں جواب دیں۔
وکیل نے بتایا کہ ہم نے اسے نہیں پارٹی کے چیئرمین کو بلایا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شکر ہے سچ نکل آیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک بیرون ملک رہنے والا شخص پارٹی کیوں رجسٹرڈ کروائے گا؟، ایک ہی رات میں پارٹی کیسے رجسٹرڈ ہو جاتی ہے، کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں اوپر سے حکم آیا تھا، آپ نے تو اپنی عقل و دانش استعمال کی ہو گی، ہماری آنکھوں میں دھول مت جھونکیں، دکھائیں پارٹی رجسٹریشن کے ساتھ 2 ہزار لوگوں کے شناختی کارڈ کہاں لگے ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ ہم نے پارٹی کی فنڈنگ سے متعلق چھان بین کی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کا شہری نہ ہونے والا کیا جماعت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ الیکشن ایکٹ 2017 کے تابع ہیں تو بتائیں اس پر عمل کیا ؟۔
الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ مسترد
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ فائل آپ واپس لے جائیں اور بتائیں آپ نے قانون پر عمل کیا ، ہمارے فیصلے کو بھول جائیں اپنا قانون دیکھ کر بتائیں، کیا قانون صرف طاقچوں میں رکھنے کیلئے ہے کیا اس پر عمل نہیں کرنا ؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فارن فنڈنگ سے متعلق بتائیں آپ نے کیا لکھا، رپورٹ میں تو آپ فارن فنڈنگ کا مان رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں 15 لاکھ فارن فنڈنگ سے آئے یہ تو معمولی رقم ہے، آپ نے15 لاکھ کی رقم کیلئے پِینَٹ کی اصطلاح استعمال کی کیا یہ کوئی قانونی اصطلاح ہے؟۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت کے فنڈ 50 لاکھ سے کچھ زیادہ تھے یہ تو 30 فیصد رقم بن جاتی ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بیرون ملک سے جو انفرادی طور رقوم بھیجی جائیں وہ ممنوعہ نہیں ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے صرف کسی دوسرے ملک کی حکومت یا کمپنی سے آئے فنڈز ہی ممنوع ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ممنوع فنڈز پائے جائیں تو وہ ضبط ہی ہوں گے۔
چیف جسٹس کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کیمشن سے کہا کہ آج آپ الیکشن کمیشن کی نہیں کسی اور کی وکالت کر رہے ہیں، آپ کسی اور کی وکالت کر رہے ہیں تو کرتے رہیں، ہمیں لگا تھا آئینی ادارہ کہے گا ہم سےغلطی ہوئی یہ تو کسی کے دفاع میں بیٹھا ہوا ہے، آپ نے انہیں کہا تھا کہ 15 لاکھ بھیجنے والے کا نام بتائیں، رقم بھیجنے والے نے اگر کہا تھا اس کا نام ظاہر نہیں کرنا تو وہ رقم واپس کر دیتے، پاکستانی قانون تو ایسی رقم لینے کی اجازت نہیں دیتا، تحریک لبیک کو آئی فنڈنگ کی تفصیل میں ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں، ظاہرہوتا ہے یہ فنڈز بیرون ملک سے ہی آئے تھے، جو کرنسی تبدیل کرکے ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں بنا۔
وکیل نے کہا کہ وقت دیا جائے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ نے عملدرآمد نہ کیا تو بتائیں ہم کیا کریں گے جس کے جواب میں وکیل کا کہنا تھا کہ میں یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ ہم عملدرآمد نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے میرا خیال ہے انہیں ادراک ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے ایک ہی دن آئینی اداروں نے نظرثانی درخواستیں دائرکیں جبکہ اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ چار سال بعد نظرثانی درخواست مقرر ہوئی۔
حسن اتفاق پر شعر ہی سنا دیں
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اچھا آپ اس حسن اتفاق پر شعر ہی سنا دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات نکلے گی تو بڑی دور تلک جائے گی۔
چیف جسٹس نےکہا کہ ہم نہیں کہتے فلاں کو جیل میں ڈال دو یا فلاں پارٹی پر پابندی لگا دیں۔
بعدازاں، چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا۔
آج کی سماعت کا حکم نامہ
عدالت عظمیٰ کی جانب سے آج کی سماعت کا حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا جس میں کہا گیا کہ عدالت نے وزارت دفاع اور آئی بی کی نظرثانی درخواستیں واپس لینے پر خارج کردی ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا ہے وہ حکومت سے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی سفارش کریں گے اور انہوں نے انکوائری کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن پیش کرنے کی مہلت مانگی ہے، انہوں نے کہا وفاقی حکومت فیصلہ تسلیم کرتی ہے اور عملدرآمد کیلئے تیار ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم سے پوچھا کیا آپ فیض آباد دھرنا فیصلے سے رنجیدہ ہیں، انہوں اپنے فیصلے میں ایک پیراگراف کی نشاندہی کی، ہم نے ان کی ذات سے متعلق کوئی آبزرویشن نہیں دی تھی، فیصلے میں آبزرویشن پیمرا اتھارٹی سے متعلق تھی ، ابصار عالم سے پوچھا کیا وہ اپنا الزام انکوائری کمیشن میں متعلقہ شخص کی موجودگی میں دہرائیں گے جس پر انہوں نے انکوائری کمیشن میں بیان اور خود کو جرح کیلئے پیش کرنے پررضامندی دکھائی۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنے پر انکوائری کمیٹی کے قیام سے آگاہ کیا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاملے کو وہ سنجدگی نہیں دی گئی جس کا وہ متقاضی تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ پیمرا وکیل سے پوچھا گیا وہ ابصار عالم کے الزامات پر کیا کہیں گے؟ جس پر پیمرا وکیل ایس اے رحمان نے کہا اُنہیں کاپی ہی آج ملی ہے،وکیل پیمرا سے پوچھا گیا کہ عملدرآمد رپورٹ میں فیصلے پرعمل کہاں ہے؟،ایس اے رحمان نے کہنا تھا وہ اس عدالت کے سامنے دلائل نہیں دینا چاہتے۔
حکم نامے کے مطابق چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے متضاد بیانات دیئے، انکی توجہ پیمرا قانون کے سیکشن 5 کی جانب دلائی گئی، ان کی مہر پر نام کے ساتھ بیگ موجود نہیں، چیف جسٹس نے لفظ بیگ ہٹانے کی ہدایت کی، ان کی مہر کے ساتھ حکومت پاکستان بھی لکھا ہے ، وہ حکومت کیسے ہیں، سلیم بیگ آپ کچھ پڑھے لکھے تو ہیں نا ، آپ کچھ تو بتائیں آپ کو اپنا نام بھی پتہ نہیں، آپ پیمرا کا قانون تو پڑھ لیں ہم آپ کو کتاب بھیج دیں گے، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے پوچھا گیا کہ نظرثانی کی درخواست کیوں دائر کی، آپ خود بتا دیں اس کے جواب میں کیا لکھیں۔
سلیم بیگ نے بتایا کہ میں نے دیگر ممبرز کی مشاورت سے نظرثانی کا فیصلہ کیا، پیرا گراف 35 کی حد تک نظرثانی میں آنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اٹارنی جنرل کو چیئرمین پیمرا کی جانب سے بولنے پر ٹوک دیا گیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ ’ مسٹر آپ ایک ادارے کی آزادی میں مداخلت نہ کریں، آپ بولیں گے تو لگے گا پیمرا آپ کے احکامات پر چلتا ہے ‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پیراگراف 35 کی بات کرتے ہیں اس کا ذکر آپ کی درخواست میں نہیں، اب بتائیں کیوں نظرثانی درخواست دائر کی تھی؟ ، نہ بولےتوہم سخت جملہ لکھوائیں گے،
حکم نامے میں لکھا گیا کہ چیئرمین پیمرا نے عدالت کو گمراہ کرنے اور معلومات چھپانے کی کوشش کی۔
چیئرمین پیمرا سلیم بیگ کی معافی
سلیم بیگ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں معافی مانگتا ہوں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے آپ کو کوئی توہین جاری نہیں کی، حکومت آپ کے کنڈکٹ کا جائزہ لے گی۔
پی ٹی آئی کی نظرثانی درخواست خارج
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت نے پی ٹی آئی کی نظرثانی درخواست بھی واپس لینے پر خارج کر دی ہے۔
شیخ رشید کو نوٹس جاری
انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے شیخ رشید کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے،انکی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے کہا اُن کا رابطہ نہیں، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے درخواست واپس لینے کا بھی کہا جو متضاد بات تھی، شیخ رشید کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی درخواست کی پیروی کریں۔
ایم کیو ایم کی نظرثانی درخواست خارج
حکم نامے کے مطابق ایم کیو ایم کی نظرثانی درخواست بھی واپس لینے پر خارج کر دی گئی۔
اعجاز الحق کی حد تک نظر ثانی درخواست نمٹا دی
اعجاز الحق کی حد تک نظر ثانی درخواست بھی نمٹا دی گئی ہے، اعجاز الحق نے آئی ایس آئی رپورٹ میں اپنا ذکر ہونے پر نظر ثانی درخواست دائر کی، ان پر دھرنے کی حمایت کرنے سے متعلق رپورٹ اُن کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، انہوں نے بیان حلفی دیا ہے جس پر یقین کی نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
حکم نامے کے مطابق کیس کی مزید سماعت 15 نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔