ہندوستان میں سکھ مخالف فسادات کو 39 سال مکمل ہوگئے ہیں، 31 اکتوبر 1984 کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندوستان میں سکھوں کے خلاف بدترین فسادات رونما ہوئے تھے۔
عرب خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سکھ مخالف فسادات کے دوران 17 ہزار سے زائد سکھ ہلاک جبکہ 500 سے زائد خواتین عصمت دری کا شکار ہوئی تھیں۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ منٹ کے مطابق صرف دہلی میں 20 ہزار سے زائد سکھوں کو دربدر کردیا گیا تھا جبکہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے چن چن کر سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
ڈپلومیٹ کے مطابق ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کا نام پتا معلوم کرکے انتہا پسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں پر نشان لگا جاتے اور اگلے دن انتہا پسند ہندو حملہ آور ہوکر مکینوں کو قتل اور گھروں کو نذ ر آتش کردیتے تھے، سکھوں کے خلاف قتل عام 3 دن بلا روک ٹوک تک جاری رہا اور شواہد سے ثابت ہوا کہ سکھوں کے خلاف قتل و غارت کو ہندوستان حکومت کی حمایت حاصل تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کےخلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
سکھوں کے خلاف 1984 میں امرتسر، 1969 میں گجرات اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی سکھ مخالف فسادات ہوئے، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی سرکار نے ہزاروں سکھوں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔
مودی سرکار نے سکھ رہنما امرت پال سنگھ کو بھی غیر قانونی طور پر240 دن سے جیل میں قید کر رکھا ہے۔
سمندر پار مقیم سکھوں کو بھی ہندوستانی حکومت ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کررہی ہے، 18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں گردوارے کے باہر قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہردیپ سنگھ کے قتل میں ہندوستانی حکومت کے ملوث ہونے کی تصدیق بھی کی۔