سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ججز نے اہم سوالات اٹھائے اور ملٹری ٹرائل کے دائرہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بنائے گئے سات رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے کو آئین کے آرٹیکل 175 پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ جس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے کسی حصے کو تو کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو کمی ایف بی علی کیس میں تھی وہ آج بھی ہے اور جب سے آئین میں آرٹیکل 10 اے شامل ہوا ہے، پہلے والی چیزیں ختم ہو چکی ہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹ کے اندر شاپنگ مالز بن چکے ہیں، اگر کوئی زبردستی داخل ہو جائے تو کیا اس کا بھی ملٹری ٹرائل ہوگا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ممنوعہ جگہوں پر جانے پر ملٹری ٹرائل شروع ہو گئے تو پھر کسی کا بھی ٹرائل کرنا بہت آسان ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں موجود نہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو مختلف چیزیں ہیں، اور یہ واضح کیا کہ کراچی میں چھ سے سات کینٹ ایریاز موجود ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ہر جگہ کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہو۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ میں رہائش پذیر ہیں، لیکن وہ علاقہ نوٹیفائڈ ممنوعہ نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انہیں ایک بار اجازت نامہ نہ ہونے پر کینٹ ایریا میں داخلے سے روک دیا گیا تھا، اور اگر ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ، پارلیمنٹ، اور ریلوے اسٹیشنز بھی اس میں آتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہونے کی وجہ سے کیسز وہاں بھیجے جاتے ہیں؟
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ آئین کہتا ہے ملٹری ٹرائل کو بنیادی حقوق کے تناظر میں نہیں جانچا جا سکتا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی۔