بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک ہوگیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں گزشتہ سال جولائی میں ہونیوالے قتل عام میں حسینہ واجد ملوث تھیں۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک کی جانب سے جاری کی گئی۔
اقوام متحدہ کی 12 فروری کو جاری رپورٹ کے مطابق کریک ڈاؤن میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے، ہلاک افراد میں سے اکثر کو بنگلہ دیش سیکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا تھا، حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن تشدد کی باقاعدہ پالیسی کا حصہ تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظاہرین اور ان کے حامیوں پر کئے گئے پرتشدد حملوں کے شواہد ملے ہیں، اقوام متحدہ نے ان اقدامات کو انسانیت کیخلاف جرائم میں شامل کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے کہ یکم جولائی سے 15 اگست 2024ء کے دوران حکومت کے خلاف مظاہروں اور بغاوت کے دوران ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، ان ہلاکتوں میں 12 سے 13 فیصد بچے تھے۔
یو این انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن کا مقصد حسینہ واجد کی جانب سے اقتدار میں رہنا تھا، بنگلہ دیش کی سابق حکومت، سیکیورٹی فورسز اور عوامی لیگ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے، ہم نے جو شواہد جمع کیے ہیں وہ ریاستی تشدد اور گھات لگا کر قتل کی کارروائیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
فولکر ترک نے مزید بتایا کہ یہ ناصرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں بلکہ بین الاقوامی جرائم بھی بن سکتے ہیں۔