بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر 8 فروری کو نام نہاد یوم سیاہ کے اعلان کے بعد جماعت کے اندر سے ہی اختلافات کی خبریں مزید عیاں ہوگئی ہیں۔ یہ بات پہلے بھی عیاں تھی کہ جنید اکبر اور علی امین گنڈا پور کے درمیان شدید سیاسی اختلافات موجود ہیں اور دونوں اپنے اپنے حلقہ احباب کو لیکر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ بانی پی ٹی آئی کے سامنے خود کو سرخرو ثابت کرسکیں۔ ایک جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں جبکہ پی ٹی آئی کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر نے صوابی میں جلسے کا اعلان کررکھا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سامنے آرہی ہے اور ذرائع اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور تمام صوبائی سرکار وسائل اور مشینری کا استعمال کرکے ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسے کو کامیاب بنانے کی تگ و دو میں ہے جبکہ جنید اکبر نے 8 کروڑ روپے اپنے صوابی جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے دیئے ہیں اور ساتھ ہی اس نے فنڈنگ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، ایک ہی صوبے کے اندر دو علیحدہ علیحدہ جلسے پارٹی میں شدید انتشار کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی دھاندلی کا واویلا مچاتے ہوئے 8 فروری کے جلسے کررہی ہے مگر ان کے جلسے صرف خیبرپختونخوا تک محدود کیوں ہیں۔۔؟، اگر واقعی دھاندلی تھی تو پھر خیبرپختونخوا میں کیا دھاندلی نہیں ہوئی۔۔۔؟، جن دیگر صوبوں میں یہ جماعت دھاندلی کا واویلا کرتی ہے وہاں کیوں جلسے اور احتجاج نہیں کر رہی۔۔۔؟۔
دیگر صوبوں کی صوبائی قیادت اور خیبرپختونخوا کی قیادت کے درمیان بھی شدید اختلافات واضح ہوچکے ہیں اور پنجاب کی قیادت تو کئی بار ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ کہہ چکی ہے کہ کیا پی ٹی آئی صرف خیبرپختونخوا میں پائی جاتی ہے۔۔؟۔ ابھی کچھ روز قبل جنید اکبر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کہ پنجاب میں جلسے کی اجازت نہیں مل رہی تو اس کا دو ٹوک جواب تھا یہ مسئلہ پنجاب کی قیادت ہی جانے ہم نے اپنے صوبے کو دیکھنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کے جلسے جلسوں میں عدم دلچسپی کے پیش نظر 8 فروری کے جلسے صرف خیبرپختونخوا تک محدود کئے گئے ہیں تاکہ سرکاری وسائل جن میں سرکاری ملازمین، اساتذہ اور پولیس اہلکار وں کو زبردستی شامل کرکے جلسے میں بڑا اجتماع دیکھا جاسکے۔ عوام اب جان چکی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ہمیشہ کی طرح عوام کو استعمال کرکے اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے دنگا فساد کرے گی اور خود فرار ہو کر عوام کو پھنسا دیا جائے گا۔ سب جانتے کہ 26 نومبر کے دنگا فساد میں گرفتار لوگ تاحال عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں جبکہ قیادت مزے لوٹ رہی ہے، اسی طرح سنگجانی میں بھی ناکام جلسے کو دیکھ کر پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور خود علی امین گنڈا پور فرار ہوگیا، اسی طرح 26 نومبر کو بھی بشریٰ بی بی سب کو چھوڑ کر علی امین گنڈا پور کی گاڑی میں فرار ہوگئی تھیں۔
ان حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب عوام ان کے پرتشدد بیانیے اور جلسے جلسوں کو مسترد کرچکی ہے اور یہ سوال کرتی ہے کہ اگر 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو پھر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کیسی بنی۔۔۔؟۔
جن صوبوں میں دھاندلی کا واویلا مچایا جا رہا ہے وہاں جلسے جلوس کیوں نہیں کئے جا رہے۔۔۔؟
کیا خیبرپختونخوا کا انتخاب سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔۔؟
ایک ہی صوبے میں ایک ہی جماعت کے دو علیحدہ علیحدہ جلسے کیا جماعت میں انتشار کی نشاندہی نہیں کر رہے۔۔۔؟
کیا پی ٹی آئی کی قیادت عوام کو اس دنگا فساد میں جھونک کر خود ہمیشہ کی طرح راہ فرار اختیار کرلے گی۔۔؟