اسرائیلی کی طالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں 23 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کا شہر غزہ آج پانی، بجلی اور خوراک سے محروم اور لاشوں کا ڈھیر بنا ہوا ہے، 141 مربع میل پر پھیلے ہوئے شہر کی آبادی میں غیرمعمولی طور پرزیادہ تر نوجوان ہیں ۔ سی آئی او کے مطابق غزہ کی 40 فیصد آبادی کی عمر 40 سال سے کم ہے اور یونیسیف کے اندازے کے مطابق تقریباً 10 لاکھ کے قریب بچے ہیں ۔
فلسطین کا تنازع آج سے نہیں ، 1948 ءسے 1967ء تک مصرکے قبضے میں رہنے سے پہلے غزہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا ، اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مصر سے غزہ کی پٹی اور اردن سے مغربی کنارے پر قبضہ کیا، اسرائیل نے غزہ پر 38 سال تک حکومت کی ، اس عرصے میں اسرائیل نے 21 یہودی بستیاں قائم کیں، غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے آج تک فلسطین میں احتجاج، فسادات اور بمباریاں چلتی آرہی ہیں۔
دل دہلا دہنے والا افسوسناک واقعہ منگل کی رات اس وقت پیش آیا جب اسرائیل نے غزہ کے ہسپتال پر حملہ کیا ، بین الاقومی میڈیا الجزیرہ کے مطابق حملے کے نتیجے میں تقریباً 500 فلسطینی شہید ہوئے۔ اسرائیل نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کی وجہ فلسطینی اسلامی جہاد کے مسلح گروپ ہیں، جس کی جانب سے داغا گیا غلط راکٹ ہسپتال پر جا لگا ۔ اسرائیل نے اب تک 89 ہزار 184 رہائشی یونٹس، 164 تعلیمی ادارے، 19عبادت گاہیں، 24 صحت کے مراکز، 23 ایمبولینس اور 11 واٹر سپلائی پلانٹس تباہ کردیئے ہیں۔
اسرائیل کی جارحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے باشندوں کو علاقہ چھوڑنے کیلئے 24 گھنٹے کا وقت دیا تھا لیکن جیسے ہی قافلے نکلے، اسرائیل نے بمباری شروع کردی، جس میں سینکڑوں بچے اور خواتین شہید ہوگئے اور ہزاروں لوگ بے گھر، بے یارومدگار کھلے آسمان کے تلے سونے پر مجبورہوگئے ۔
اس تنازع کے آغاز پر اگر نظر دوڑایں تو واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، 1967ء میں غزہ کی پٹی کے مغربی کنارے گولان کی پہاڑی اور مصر پر اسرائیل کی فوجی پیش قدمی نے تازہ خونریزی کو جنم دیا تھا اور اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار داد 242 منظور کی، جس میں اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے کا حکم دیا تاہم اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے فیصلے کو نظر انداز کردیا گیا۔ 30 مارچ 1976ء کو اسرائیل کے قبضے کے بعد بعیرہ گلیل سے نیگیو تک کے قبضوں میں بغاوتیں شروع ہوگئیں، اس تاریخ کو فلسطین کے لوگ یومِ زمین کے طور پر مناتے ہیں۔ 1992ء کے فسادات میں اسرائیلی وزیراعظم نے شرمناک الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہوں گا کہ غزہ سمندر میں ڈوب جائے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
فلسطین میں بغاوت کیخلاف پہلی احتجاجی تحریک 1982ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی۔ 1993ء اور 1995ء کے معاہدوں میں فلسطینیوں کو غزہ کے کچھ حصوں میں خود مختیاری دی گئی لیکن ریاست کا درجہ نہیں دیا گیا۔
اسرائیل نے 2002ء میں مغربی کنارے کے شہروں پر دوبارہ قبضہ کرلیا، 2003ء میں غزہ کی پٹی میں وزیراعظم ایریل شیرون کی طرف سے دی گئی تجویز پر اسرائیل کی بستیوں کو ختم کردیا گیا اور یہ اس خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کیا گیا۔ 2005ء میں ملکی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول چھوڑ دیا۔ اسرائیلی افواج کے دستے سمیت 9 ہزار اسرائیلی باشندوں کو واپس بلالیا گیا۔ 2006ء میں حماس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد آج تک غزہ میں الیکشن نہیں ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے 2007ء میں غزہ کی زمینی، فضائی اور سمندری راستوں کی ناکہ بندی کردی گئی، جس پر اقوام متحدہ کی طرف سے 2009ء میں اسرائیل کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل کا مؤقف یہ تھا کہ اسرائیل کی عوام کو حماس کے راکٹ حملوں سے بچانے کیلئے غزہ کی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس ناکہ بندی سے فلسطین کی تقریباً 171 بلین ڈالر کی معیشت کو نقصان پہنچا۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کرکے مشرقی وسطیٰ کے دہائیوں سے پریشان رکھنے والے مسئلے کو دوبارہ اجاگر کردیا، حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کو ویران جزیرے میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ حماس کی طرف سے یہ حملہ اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل کی افواج نے مسجد اقصٰی کے احاطے کو کنٹرول کیا اور حالیہ تصادم سے فلسطینیوں کے قتل کی شرح بہت زیادہ حد تک بڑھ گئی۔
ہفتہ 7 اکتوبر کی صبح تقریباً 8:30 بجے حماس نے اسرائیل پر راکٹ داغے، حماس کے مطابق تقریباً 5000 راکٹ داغے گئے لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ 2500 راکٹ داغے گئے۔ اسرائیلی دفاعی انجینیئر اوزی روبن کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے زیر استعمال راکٹ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے مختلف نہیں لیکن 2014ء میں استعمال ہونیوالے راکٹوں سے مختلف ہے۔ حماس کے فوجی ترجمان ابو عبیدہ نے اعلان کیا تھا کہ گروپ نے تل ابیب کے قریب حملہ کرنے کیلئے ”عیاش 250“ نامی ایک نیا راکٹ استعمال کیا ہے۔ حماس کے مطابق راکٹ کی رینج 150 میل سے زیادہ ہے، حالانکہ ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔
فیبین ہنز کے مطابق حماس نے بیرون ممالک سے جو راکٹ حاصل کئے ہیں، ان میں ایران سے فجر-3 اور فجر-5 اور شام سے M302 شامل ہیں۔ حماس اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ تقریباً 100 میل تک راکٹ تیار کرسکے۔ (فیبین ہنز ایک آزاد او ایس آئی این ٹی ماہر ہے جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا خطے میں میزائل کے پھیلاؤ پر توجہ مرکوز کرتا ہے)۔
حماس کے رہنماؤں نے ستمبر میں الجزیرہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ فجر میزائل اور روسی کورنیٹ اینٹی میل گولے زمین اور سمندر کے راستے غزہ میں داخل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ساتھی اور میزائل ڈیفنس پروجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایان ولیمز نے کہا کہ غزہ سے راکٹ فائر ہوئے تھے، حماس کے ان ہتھیاروں کے پروگرام پر ایرانی اثرات ملتے ہیں۔
حماس کی بنیاد 1980ء کی دہائی میں رکھی گئی تھی اور وہ اپنے آغاز سے ہی مرحوم یاسر عرفات کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے مخالف رہی ہے۔ ایسے دعوے ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے ابتدائی دنوں میں حماس کی مدد کی تاکہ پی ایل او کا مقابلہ کیا جاسکے۔
پی ایل او کے برعکس حماس اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم نہیں کرتی، اس کے نشان میں یروشلم میں چٹان کے گنبد کو دکھایا گیا ہے اور اسرائیل، غزہ اور مغربی کنارے کے علاقے کو ایک واحد فلسطینی ریاست کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
بین الاقومی میڈیا الجزیرہ کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 3860 فلسطینی اور 1403 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، 12 ہزار 493 فلسطینی جس میں 2 ہزار سے زائد بچے اور ایک ہزار 400 خواتین شامل ہیں جبکہ اب تک اسرائیل کے 4 ہزار 629 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کے چارٹر میں بتائے ہوئے جنگی اصولوں کی پرواہ کئے بغیر غزہ میں اسپتالوں، اسکولوں، مساجد اور پبلک مقامات پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔
جنیوا میں قائم یورپی-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے صدر رامی عبدو نے اپنے ایکس سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوجی دستوں نے غزہ شہر کے شمال مغرب میں گنجان آباد علاقوں میں فاسفورس ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی سابقہ رپورٹس میں کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنے حملوں میں فاسفورس کا استعمال کیا۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیل نے اب تک 4000 ٹن کے 6000 بم غزہ پر گرائے ہیں جو کہ امریکا نے ایک سال میں افغانستان پر داغے تھے۔