ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا کیخلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ نے اضافی نوٹ جاری کر دیا ، جس میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹونے لکھا تھا آزاد عدلیہ عوام کی منتخب کردہ ایگزیکٹو کے شانہ بشانہ ہوتی ہے، مگرعوام کی ایگزیکیٹو جیل میں ہے، بھٹونے لکھا تھا کہ اسمبلیاں قبرستانوں کی طرح خاموش ہیں کیا ایسے ریگستان میں آزادعدلیہ کاپھول کھل سکتا ہے؟۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اضافی نوٹ میں ذوالفقارعلی بھٹوکاٹرائل سیاسی ٹرائل کی کلاسیک مثال قرار دیا اور کہا جس میں تفتیش کی منظوری غیرقانونی طورپردی گئی، سیاسی ٹرائل میں من پسند نتائج کیلئےغیر شفاف طریقےآزمائےجاتےہیں،اور عموما"سابق اتحادیوں کے ہی بیانات لےکر گواہ بنایاجاتا ہے،آمرانہ دورمیں ججز کو یاد رکھنا چاہیے ان کی اصل طاقت عہدے پر فائز رہنا نہیں آزادی قائم رکھنا ہے،جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو کیس میں جرأت مندی سے اختلاف کیا،دوراب پٹیل نے ضیاء کے جاری کردہ عبوری آئین کےتحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، سمجھوتہ کر لینے کی میراث چھوڑنے کے بجائے عہدہ کھو دینا ایک چھوٹی سی قربانی ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے جج کی بہادری کا اندازہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے اور مداخلت کیخلاف ثابت قدم رہنے سے لگایا جا سکتا ہے، دراندازیوں کی فوری مزاحمت اوراصلاح کی جانی چاہیے،عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے، آمرانہ مداخلتوں کا مقابلہ کرنے میں تاخیرقانون کی حکمرانی کیلئےمہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ بھٹو نے کہا تھا آزادعدلیہ صرف آئین کی چھتری کےنیچےکام کرسکتی ہے،بندوق کےسائےمیں نہیں ۔