رکن قومی اسمبلی سید رفیع اللہ نے معاملہ قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار میں اٹھا نے پر کمیٹی نے وزارت خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کر لی۔
رکن قومی اسمبلی سید رفیع اللہ کاکہنا تھاکہ معاشرے کا غریب طبقہ اپنے حق سے محروم، پارلیمنٹ سے قانون منظور ہونے کے باوجود مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، سی ڈی اے، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، پارلیمنٹ ہاوس، ایکسپورٹ پراسسنگ زون اتھارٹی اور سندھ لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت درجنوں ادارے ملازمین کو ماہانہ سینتیس ہزار روپے سے کم اجرت ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امیراور پہلے سے مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات کی برسات کی گئی مگر غریب طبقہ قانون پاس ہونے کے 3 ماہ بعد بھی کم ازکم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے کے حق سے محروم ہے۔
رکن قومی اسمبلی سید رفیق اللہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس میں پھٹ پڑےان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاوس سمیت کئی سرکاری اور نجی اداروں میں تنخواہ دار طبقے اور مزدور کا استحصال کیا جارہا ہے ماہانہ 37 ہزار کے بجائے 18 سے 20 ہزار روپے پر کام لیا جارہا ہے۔
سید رفیع اللہ، رکن قومی اسمبلی (اسمبلی سے لے کہ جو قانون ساز ادارہ ہے یہاں سے لے کر جس مرضی ادارے پر آپ رک جائیں سب کے سب غیر آئینی، غیر قانونی طور پر غریب، کمزور، مزور آدمی کا خون چوس رہے ہیں اور اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں غریب آدمی لوگوں کی ترجیح نہیں ہے نیشنل اسمبلی کے کیفے ٹیریے، لاجز میں سی ڈی اے کے ملازم کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ درجنوں صنعتی ادارے عام مزدور کو ماہانہ کم از کم 37 ہزار روپے اجرت ادا نہیں کر رہے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے حکام نے اعتراف کیا کہ کم از کم ماہانہ اجرت کا نوٹیفکیشن اگست میں جاری ہوا تاحال بورڈ میٹنگ بلا کر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر، ایکسپورٹ پراسسنگ زون اتھارٹی، سندھ ریونیو بورڈ، پاکستان اسٹیل ملز سمیت درجنوں ادارے کم از کم اجرت سے متعلق قانون پر عمل درآمد میں ناکام ہیںکمیٹی نے کم ازکم اجرت کے قانون پر عملدراآمد کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت خزانہ سے رپورٹ مانگ لی۔