سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس دوران سٹیٹ بینک حکام کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی ، بریفنگ میں کمیٹی اراکین نے اسلامی بینکوں کی جانب سے قرضوں پر زیادہ شرح وصولی پر تحفظات کا اظہار کیا ۔
سٹیٹ بینک نے بتایا کہ روایتی بینک قرض دینے پر 22.7 فیصد سود جبکہ اسلامی بینک 18.8 فیصد ریٹ وصول کر رہے ہیں، صارفین کی طرف سے اسلامی بینکوں میں ڈیپازٹس پر منافع کی شرح 14.1 فیصد ہے، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینک اسلام کیلئے نہیں بلکہ زیادہ ریٹرن حاصل کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کو روایتی بینکوں کی طرح اسلامی بینکوں کو ریگولیٹ کرنا چاہئے۔
سٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے، بین الاقوامی اسلامک بینکنگ میں پاکستان 11 ویں نمبر پر ہے، انوشہ رحمان نے سوال کیا کہ کیا اسلامی بینکاری میں کبھی نقصان صارف کو دیا جاتا ہے، سٹیٹ بینک کے نمائندے نے بتایا کہ اگر اسلامی بینک کو نقصان ہو تو وہ اپنا منافع کم کر کے صارف کو بچاتے ہیں، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینک کمرشل بینکوں کے مقابلے میں 4 فیصد کم منافع ادا کر رہے ہیں، سٹیٹ بینک نے جواب دیا حکومت نے کمرشل بینکوں سے 40 کھرب روپے کا قرض لے رکھا ہے۔
کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت بینکوں سے اتنا قرضہ لے گی تو مہنگائی کم نہیں ہوگی، بینکوں سے حکومتی قرض کی کوئی حد مقرر ہونی چاہئے۔