سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کی قانون سازی کو درست قرار دے دیا، ایکٹ کیخلاف عدالت عظمیٰ میں دائر تمام درخواستیں مسترد کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے 5-10 کی اکثریت سے دیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تاخیر کیلئے معذرت چاہتے ہیں، معاملہ بہت تکنیکی تھا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ برقرار رہے گا، اپیل کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔
فیصلے کے مطابق اپیل کا ماضی کے فیصلوں پر اطلاق والی شق 8 کے مقابلے میں 7 سے کالعدم قرار دیدی گئی جبکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت اپیل کا حق 9 کے مقابلے میں 6 سے برقرار رکھا گیا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپیلوں کا اطلاق ماضی پر لاگو نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ ہوگیا، سپریم کورٹ نے ایکٹ پر حکم امتناعی دے رکھا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل برقرار رکھنے کے فیصلے سے جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے اختلاف کیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپیل کا حق ماضی سے دینے کی شق 8/7 کی اکثریت سے کالعدم قرار دی گئی، اس فیصلے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلاف کیا۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اس سے قبل کیس کی سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپس میں مشاورت کریں گے، اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو فیصلے کو محفوظ سمجھیں اور اگر اتفاق رائے ہوگیا تو فیصلہ آج ہی سنائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
بدھ کے روز اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل دیئے گئے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیر ی نے جواب الجواب دلائل مکمل کیے۔
یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کردی تھی ، منگل کے روز ہونے والی سماعت کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل مکمل کئے جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے ایکٹ کی حمایت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں۔’’سوال سے پہلے وکیل کی دلیل پوری تو ہونے دیں ‘‘، چیف جسٹس، ’سوال کرنا میرا حق ہے‘،جسٹس منیب
اٹارنی جنرل کے دلائل
بدھ کو سماعت شروع ہونے پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا، آئین میں کئی جگہوں پر سبجیکٹ ٹو لاء کی اصطلاح آئی، پرائیویسی کا حق بھی سبجیکٹ ٹو لاء رکھا گیا، کس نوعیت کا قانون ہوگا یہ نہیں بتایا گیا۔
آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی
اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کو آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا، 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔
منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا۔
جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے اگر 1973 کے بعد سے آرٹیکل 191 کے تحت کچھ نہیں کیا تو اس کا ایک اور مطلب بھی تھا، اس کامطلب یہ بھی ہو سکتا ہے پارلیمنٹ نے تسلیم کیا ہو آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس اعجاز الحسن
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ جہاں پارلیمنٹ کی ایسی نیت تھی وہاں اس مزید قانون سازی کے اختیار کو واضح کیا گیا، آرٹیکل 191 میں بھی پارلیمنٹ کی یہ نیت ہوتی تو ایسا کہتی، پارلیمنٹ کہہ سکتی تھی جب تک قانون نہیں بن جاتا تب تک رولز بنا لیں، آرٹیکل 191 میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 191 میں لا ءکی اصطلاح 1956 کے رولز سے متعلق نہیں تھی، سوال آیا تھا کہ 1965 کے رولز کو پہلے سے موجود قانون کی حیثیت تھی، کہا گیا آرٹیکل 191 میں لاء کی اصطلاح 1956 کے رولز سے متعلق نہیں تھی۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا 1980 میں بنے سپریم کورٹ رولز کو اب موجودہ قانون کہہ سکتے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رولز کو قانون نہیں کہہ سکتے، جسٹس منیب نے استفسارکیا کہ کیا پارلیمنٹ کے رولز آف بزنس بھی قانون ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یس ، وہ قانون ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ آئین کے تحت دیئے اختیار سے بنے پارلیمنٹ کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں تو سپریم کورٹ کے رولز کیوں نہیں؟ ، جبکہ جسٹس آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 1980 کے رولز قانون ہیں مگر آرٹیکل 191 میں جس لا کا کہا گیا وہ الگ ہے؟ ، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں۔
جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں رولز کو قانون کا درجہ ہے مگر آرٹیکل 191 کے تحت یہ قانون نہیں، جب ہم لا کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایکٹ آف پارلیمنٹ سے زیادہ کچھ دیکھنا ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز بن جانے کے بعد آرٹیکل 191میں درج لاء کی اصطلاح ختم ہو جاتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 191 میں پارلیمنٹ پر ترامیم کی کوئی پابندی نہیں۔
قانون دینے والا ادارہ پارلیمنٹ ہے
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے بنائے رولز میں پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے پرکوئی پابندی نہیں؟ ، کیا پھر پارلیمنٹ کے بنائے قانون میں سپریم کورٹ کی جانب سے ترامیم پر بھی کوئی پابندی نہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون دینے والا ادارہ پارلیمنٹ ہے، زیرالتوا کیسز کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ گئی تو شاید ایک اور قانون کی ضرورت پڑے، پارلیمنٹیرنز نے پانچ سال بعد عوام میں جانا ہوتا ہے۔
جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آپ ریکارڈ لائے ہیں پارلیمنٹ میں کتنے لوگوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر بحث کی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایکٹ پر سوال اٹھا دیئے
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سوال اٹھا دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جو مسئلہ تھا پارلیمنٹ اس کو ٹھیک کرتی، ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تھری سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا، پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخود نوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کے لیے ججز کمیٹی بنا دی ، پورا سپریم کورٹ ایک ٹائی ٹینک ہے ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا، پارلیمنٹ کے اختیار استعمال کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا، اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں تو پارلیمنٹ کی بھی ہیں، مان لیتے ہیں پارلیمنٹ کا اختیار قانون سازی ہے مگر جو ایکٹ لائے ہیں اس کو دیکھیں۔
پارلیمنٹ نے ہم پر اعتماد کیا ، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک ادارے کو دوسرے کی عزت کرنی چاہیئے، میرا خیال ہے پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی عزت کی، پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم اور اٹھا سکتی تھی جو نہیں اٹھایا، میرا خیال ہے وہ قدم اس لئے نہیں اٹھایا گیا کہ پارلیمنٹ نے ہم پر اعتماد کیا، اب ہم دیکھیں شاید اس قانون کے تحت مزید رولز بنانے پڑیں۔
ہمیں اس معاملے کا سکوپ بڑھانا نہیں چاہیئے، پارلیمان ہماری دشمن نہیں نہ پارلیمان ہمیں دشمن سمجھتی ہے، ہم دونوں کو ساتھ چلا سکتے ہیں، ایک ادارے کو دوسرے سے لڑانا نہیں چاہیئے،ایک بار ہمیں ایک دوسرے کو کہہ لینے دیں آپ نے ٹھیک کیا ہے، دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے، ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت بہت سے مسائل ہیں، 40 سال سے قانون سے وابستگی ہے کچھ غیر آئینی ہوا تو ہم دیکھ لیں گے۔
ایکٹ پرعمل نہ کریں تو؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ہم ایکٹ پرعمل نہ کریں تو کیا ہوگا ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اپنے حلف کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں۔
ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح پہلی بار آئی کہاں سے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹر تسلیم نہیں کرتا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح پہلی بار آئی کہاں سے ؟ ، انگلستان سے ہم سیکھتے ہیں کیا وہاں استعمال ہوتا ہے؟ ، جیسے آئین کا ماخذ میگنا کارٹا ہے ماسٹر آف روسٹر کا کیا ہے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئےکہ سکول کے زمانے میں ماسٹر کا سنا تھاجبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماسٹر تو ایک ہی ہے اوپر والا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ نوآباد یاتی نظام سے ہی ماسٹر کی اصطلاح لینی ہے؟ ، ہم تو 14 سو سال پہلے کی طرف دیکھتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ اصطلاح پسند آئے یا نہ آئے میں اسے شارٹ ہینڈ استعمال کرتا ہوں، اس ایکٹ کے مطابق بھی ماسٹر آف روسٹر تو تین ججوں کی کمیٹی ہی ہے نا؟، اس میں نہ جائیں کیا نوآبادیاتی ہے کیا نہیں، ہمارے سامنے جو ہے اس پر فوکس کریں، تین ججوں کو اختیار دیا گیا اس کو فل کورٹ کر دیں نا، کسی کو شکایت ہے پہلے فل کورٹ نہیں ہوتی تھی تو اب کر لیں کس نے روکا ہے؟، ہم کہتے ہیں رولز بنانا فل کورٹ کا اختیار ہے آپ نے اسے تین رکنی کمیٹی میں جکڑ دیا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ عدالت وفاقی حکومت کا جواب چاہتی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون پرعمل درآمد لازمی ہے یا نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون پر عملدرآمد لازمی ہے۔
جیو اور جینے دو
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان سے منفی چیزیں کیوں منسوب کی جائیں؟ ، اداروں کو نہ لڑائیں میں تو کہوں گا جیو اور جینے دو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کی روایات بھی آئین میں تسلیم شدہ ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئینی روایات ہر اس ملک میں تسلیم شدہ ہیں جہاں تحریری آئین بھی موجود ہے، آئینی اور قانونی روایات میں تضاد ہو تو آئینی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 189 کے تحت کسی صورت روایات ماننے کے پابند نہیں ہیں، اگر نوآبادیاتی نظام پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ ہے؟۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نو آبادیاتی قوانین پر انحصار کر کے ہی فیلڈ مارشل ایوب خان نے آئین دیا، ماسٹر آف روسٹر کمیٹی وہی کام کرے گی جو چیف جسٹس کرتا ہے، ایک جج کے ہاتھ میں اختیار نہیں دینا تو تین کے کیوں؟، چودہ ججز کو ایک جج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا تو 12 کو تین پر کیسے چھوڑا جائے؟، اگر ماضی میں کسی چیف جسٹس نے اختیار فل کورٹ کو نہیں دیا تو آپ دے دیں۔
کیا سپریم کورٹ اپنا دائرہ اختیاربڑھا سکتی ہے
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اپنا دائرہ اختیاربڑھا سکتی ہے؟ ، اگر پارلیمنٹ نہیں بڑھا سکتی تو کیا سپریم کورٹ بڑھا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ حالیہ مثالیں ہیں جب بینچ میں مزید ججوں کو شامل کیا گیا، نیا ایسا دائرہ اختیار اخذ کیا گیا جو آئین میں نہیں تھا، یہ حساس معاملہ ہے آپ شاید اس پر بات نہ کرنا چاہیں ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ بات ضرور کروں گا۔
پارلیمان کوعزت دیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے صرف ایک سوال ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا نہیں، اگر غیرآئینی ہوا تو برقرار نہیں رہے گا، تلوار کے نیچے گردن ہو تو بھی لوگوں نے کلمہ پڑھا، پڑھ لیا تو بات ختم، کسی کی نیت پر کیوں بات کریں، پارلیمان کوعزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، قانون اچھا یا برا ہونے پر بحث ہوسکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ میرا ایک سوال قانون آئینی ہونے اور دوسرا پارلیمان کے اختیار کا تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شقیں کیسے آئین سے متصادم نہیں ہیں؟ ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی ثابت کرنے کا بوجھ درخواست گزاروں پر ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ آپ صرف یہ کہہ دیں کہ درخواست گزار اپنا بوجھ اتارنے میں ناکام رہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے لیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کے براہ راست اختیار کی ضرورت نہیں ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھانے سے متعلق پارلیمان براہ راست قانون سازی کر سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھا سکتی ہے کم یا ختم نہیں کر سکتی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہائیکورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ سے متعلق پارلیمان کو براہ راست قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یعنی جو آئینی پابندی ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ کے لیے ہے وہ سپریم کورٹ کے لیے نہیں ہے؟۔
184/3 کےتحت مقدمات اورانکےنتائج کی تفصیل
اٹارنی جنرل نے 184/3 کے تحت مقدمات اور انکے نتائج کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیل مل کا نقصان 30 جون 2022 سے اب تک 206 ارب روپے ہوچکا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے ایکشن سے یہ سب ہوا، جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کےخلاف چارج شیٹ نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ہم سچ سننے سے ڈرتے کیوں ہیں؟ ۔
جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ آپ اس چارج شیٹ سےچاہتے کیا ہیں؟ ، کیا آپ ہم سےنظریہ ضرورت کےتحت پریکٹس پروسیجر ایکٹ کو قانونی کہلوانا چاہتے ہیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم تنقید سننے سے گھبراتےکیوں ہیں آپ مجھےآئینہ دکھائیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اختلاف ہوا تو ہم فیصلے میں لکھ لیں گے دلائل کی حد تک تو اٹارنی جنرل کو کہنے دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل یہ کوئی ڈیبیٹ سوسائٹی نہیں نہ ہم آپ سے لیکچر سننے بیٹھے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز کے تحت اپنا اختیار بڑھا سکتی ہے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اس کا اختیار رولز سے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال ہونا نہیں چاہیے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال ہونا نہیں چاہیے، جج سے زیادہ عرصہ وکیل رہا ہوں، ججز کو اچھا لگے یا برا وکیل اپنے مطابق دلائل جاری رکھتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ اپنےدلائل جاری رکھیں سوالات کےجوابات آخر میں دے دیجیےگا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق پارلیمنٹ کا اختیار آرٹیکل 191 اور اینٹری 58 سے نکلتا ہے، سپریم کورٹ اختیارات کو پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ایک باراگر سپریم کورٹ اختیار بڑھا دیا جائے تو ایکٹ کو ختم نہیں کیا جا سکتا؟ ، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کے دائرے کو پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی پارلیمنٹ پر کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 212 عدالتوں سے متعلق قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپکی جانب سے جواب دینا اور عدالت کا جواب سےمتفق ہونا مختلف چیزیں ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش ہے کہ اکثریت کو متفق کروں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس ایکٹ میں اس کے اطلاق سے متعلق کیا کہا گیا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن ٹو کے مطابق اس کا اطلاق ماضی سے ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا اطلاق پہلے ہو چکے فیصلوں پر کیسے ہو گا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کئی تو ایسے معاملات ہیں جو اب زندہ مسائل کے طور پر باقی موجود ہی نہیں،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب میں 'پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ' سے زیادہ متفق نہیں، کیا یہ اصطلاح کوئی آئینی یا قانونی ہے؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اس ایکٹ کے تحت جن کی نظرثانی ہوچکی وہ بھی دوبارہ اپیل میں آجائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیصلہ اکثریت سے آیا ، نظرثانی کو مگر اقلیتی بینچ ممبران نے بھی مسترد کیا، وجہ یہ تھی کہ اس وقت نظرثانی کا دائرہ اختیار ہی کم تھا، میرے خیال میں ایسی صورت میں اپیل کا راستہ بند نہیں ہوجاتا۔
جسٹس مظاہرنقوی نے ریمارکس دیئے کہ وہ ایک بالکل مختلف معاملہ تھا کیونکہ پہلا فیصلہ ہائیکورٹ سے آیا تھا، سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل آئی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں اس بات سے متفق ہوں میں صرف ایک صورتحال بتا رہا ہوں۔
فل کورٹ بنا کر غلطی کی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ مجھےغلطی تسلیم کرنے دیں کہ فل کورٹ بنا کر غلطی کی، میرے ساتھیوں میں سے مگر کسی نے فل کورٹ پر اعتراض نہیں کیا تھا، جب پہلے 8 رکنی بینچ بنا تب بھی اعتراض نہیں ہوا۔
اپیل سے متعلق سوالات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کا حق تو 8 رکنی بینچ سے بھی ختم ہوا تھا، مفروضوں سے نکلیں اور دلائل مکمل کریں جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معذرت کے ساتھ یہ مفروضے نہیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل
صدر سپریم کورٹ بار کے جواب الجواب دلائل
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شرعی عدالت سے متعلق اٹارنی جنرل کے دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں، فیڈرل شریعت کورٹ بناتے وقت اعلیٰ عدالتوں سے اختیار لے کر انصاف کا متوازی نظام بنایا گیا، امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری عدالتیں ماضی میں مانتی رہی ہیں، امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے میں عدالت کے اپیل اور آئینی دائرہ اختیار پر بحث ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم امریکی عدالتوں کے حوالے دیتے ہیں، ہمارے بینچ میں ایسے ممبر بیٹھے ہیں جن کے فیصلوں کی نظیر امریکا میں دی جاتی ہے، انہوں نے جسٹس اطہر من اللہ کے کاون ہاتھی سے متعلق فیصلے کا حوالہ بھی دیا۔
عابد زبیری نے کہا کہ ان شاءاللہ اس فیصلے کی بھی نظیر پیش کی جائے گی۔
فیصلہ محفوظ
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے سماعت مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔