سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دراخواستوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی ہے ، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے منگل کے روز بھی درخواستوں پر سماعت کی۔
منگل کے روز ہونے والی سماعت کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل مکمل کئے جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے ایکٹ کی حمایت کی گئی ۔
سماعت کے اختتام پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے اٹارنی جنرل کے دلائل آئندہ سماعت پر سننے کا فیصلہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ پیر کے روز صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے ایکٹ کی مخالفت میں دلائل مکمل کرلئے تھے جبکہ مسلم لیگ ( ن ) اور مسلم لیگ ( ق ) کے وکلاء نے بھی اپنے دلائل مکمل کر لئے تھے جس کے بعد کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کی گئی تھی۔
سماعت کا آغاز
منگل کے روز سماعت شروع ہونے پر متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل شروع کئے اور کہا کہ درخواستیں قابل سماعت ہونے کا سوال نہیں اٹھاؤں گا، درخواستگزاروں نے جن 2 فیصلوں کا حوالہ دیا ان پر بات کروں گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کاکڑ کیس کا حوالہ دیا گیا اور دوسرا سپریم کورٹ ریویوایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا گیا، اگر درخواستگزاروں کی ان فیصلوں کی تشریح درست ہو پھر تو ایکٹ غلط ہے، ان فیصلوں اور موجودہ کیس میں مگر فرق ہے، کیس میں فریق نہیں ہوں عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا ہوں، سوال ہوا کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں۔
وکیل ایم کیو ایم نے کہا کہ ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں "لا" کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال دہرایا کہ سوال یہ تھا کہ کیا سبجیکٹ ٹو "لا" کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے؟ ، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اپنی بات پہلے مکمل کریں، بینچ ممبران سے درخواست کروں گا پہلے انہیں بات مکمل کرنے دیں۔
ایم کیو ایم کی ایکٹ کی حمایت
ایم کیو ایم کے وکیل کی جانب سے ایکٹ کی حمایت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ ایکٹ کیخلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں مگر میرٹ پر خارج کی جائیں۔
جسٹس اعجازالاحسن
سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے وکیل ایم کیو ایم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، مسٹر صدیقی! آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں‘‘۔
چیف جسٹس کی ساتھی ججز سے درخواست
چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں ہے، 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیسز التوا کا شکار ہو رہے ہیں، میری اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے کہ اپنے سوالات کو روک کر رکھیں، بینچ میں ہر کوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں، چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔
وکیل ایم کیو ایم نے دوبارہ سے دلائل دیتے ہوئے کہ سپریم کورٹ رولز میں لاء کی تعریف لکھی ہے، سپریم کورٹ رولز بناتے وقت اس بات پر کوئی ابہام نہیں تھا کہ لاء کا کیا مطلب ہے۔
جملوں کا تبادلہ
دوران سماعت چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور جسٹس منیب اختر نے وکیل کوسوال پر فوکس کرنے کی ہدایت کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرا خیال ہے وکیل کا حق ہے وہ جیسے دلائل دینا چاہے دے۔
جسٹس منیب اختر جواباً کہا کہ بینچ میں بیٹھے جج کے طور پر سوال کرنا میرا حق ہے، آئی ایم سوری مجھے بار بار ٹوکا جائے تو یہ درست نہیں۔
چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا اور پوچھا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے۔
مکالمہ
چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیےگا، جس پر جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے سپریم کورٹ کی اندرونی ورکنگ میں مداخلت ہوئی یا نہیں؟۔
وکیل نے بتایا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کرسکتی، موجودہ قانون سے مگر یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔
جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191 میں سپریم کورٹ کو دیا گیا اختیار حتمی ہے یا اس میں قانون سازی کے ذریعے مداخلت کی گنجائش ہے؟۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو اور لاء کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟، ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی جس پر وکیل نے کہا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔
جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لیجسلیٹیو انٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیاردیتی ہیں؟، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، اگر آرٹیکل 191کو لیجسلیٹیو انٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیارتھا؟، صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟۔
وکیل نے جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال اور جسٹس حسن اظہر کے فیصلے پڑھ کر سنائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں ’لائٹرنوٹ‘ پرآپ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں، آپ ججز کی بالکل مختلف آرا کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جسٹس مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اپنے نوٹس میں سپریم کورٹ کی پریکٹس پر لکھا۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ میرا نوٹ تو میری رائے تھی جس پر وکیل نے کہا کہ آپ کےسوال سے یہ ساری بحث شروع ہوئی تھی، رجسٹرار آفس کے آرڈر کے خلاف اپیل بھی ہوتی ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتظامی آرڈر اور ایڈمنسٹریٹو اپیل ہوتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھلے انتظامی اپیل ہو لیکن ہمیں اسکی حقیقت کوسمجھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی جماعت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف ووٹ دیا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں، ایم کیو ایم نے تو حمایت میں ووٹ دیا تھا۔
پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ نے انصاف تک رسائی کی ہی ایک قانون سازی کی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191 کی لینگویج سبجیکٹ ٹو لا سے شروع ہوتی ہے، بہت کم ایسے آرٹیکل ہیں جو ایسا الفاظ سے شروع ہوں، جس پر وکیل نے بتایا کہ آئین کے صرف تین ایسے آرٹیکل ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی؟، آرٹیکل 184 تین جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا بینچ بھی رولز کا پابند ہے؟ ، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ میرا خیال ہے پابند ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیاراستعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟ ، کوئی بینچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟ ، کیا بینچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟ ، اگر پارلیمنٹ بھی نہیں کر سکتی بینچ بھی نہیں کر سکتا تو پھر سارا اختیار ایک شخص کے پاس رہ جاتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ رولز کی آئینی حیثیت پر بینچ آرڈر دے سکتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ رولز کی آئینی حیثیت پر بینچ آرڈر دے سکتا ہے، چیف جسٹس کے کردار کو ریگولیٹ کرنے سے سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں ہوتا۔
ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ فیصل صدیقی صاحب! عدالتی نظیروں سے آپ لاء سکول میں لیکچر دے سکتے ہیں، یہاں ایک فل کورٹ بیٹھی ہے جو عدالتی نظیروں پر لیکچر نہیں سننا چاہتی۔
جسٹس منیب اختر کے دوبارہ سوال پوچھنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیں، بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔
ہر ادارہ اپنا احتساب کرے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ سب کو خوش رکھنا ہے تو پھر آئینی باتیں نہ کریں، جسٹس اعجاز کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی، آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہاں مداخلت ہوئی کیونکہ چیف جسٹس اپنا کام نہیں کر رہے تھے، سادہ سی باتیں ہیں آپ کو ہچکچاہٹ کیا ہے ؟، کہہ سکتے ہیں نا کہ اگر یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی، کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی، ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟، ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔
جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ممکن ہے کوئی میرے سوال سے اتفاق نہ کرے ، کسی کو اپیل کا حق ملے گا کسی کو نہیں ملے گا ، اپیل کا حق ملنے سے دوبارہ قوانین بنیں گے، پارلیمان نے کہا ہے اپیل ہونی چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ 184 تین کے ہر حکم پر اپیل ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر لارجر بینچ ہے تو اپیل نہیں ہوگی۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹس میں بھی ڈویژن بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہوتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ترمیم سے پہلے سوچ بچار کی گئی تھی ؟،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اپیل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ لارجر بینچ اپیل سنے گا، لارجر بینچ کی تعداد نہیں بتائی گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اپیل کے حق کو محفوظ کرنے کیلئے آپ فل کورٹ نہیں بنا سکتے۔
ایم کیو ایم کے وکیل کے دلائل مکمل
ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن ان کے دلائل کی تعریف کی۔
پاکستان بار کونسل
پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین ہارون الرشید دلائل کے لئے روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس ایکٹ کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ ہم اس ایکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وکلا کے درمیان اتنا اختلاف کیسے آیا؟ سپریم کورٹ بار ایکٹ کی مخالفت کر رہی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے جواب دیا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ دو ذہین دماغ اختلاف کر سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے کہا کہ میں دلائل مختصر رکھوں گا اور ایک گھنٹے میں مکمل کروں گا جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ آیک گھنٹے میں نہیں جاسکیں گے، سوالات کی بمباری ہو گی۔
سماعت ملتوی
بعدازاں، فل کورٹ نے اٹارٹی جنرل کو بدھ کے روز سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔