وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاہے کہ چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ،بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے یہ نہیں بتانا کہ کس جماعت نے کیسے چلنا ہے، چیف جسٹس نے نہیں کہنا کہ پارٹی کا سربراہ کون ہوگا، ، مقررہ مدت میں کیس کا فیصلہ نہ ہونے پر جج کے خلاف تادیبی کارروائی آئینی پیکج کا حصہ ہے ،اگر وکلاء آئینی پیکج کو مسترد کرتے ہیں تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا، سیاستدان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے معاملات سپریم کور ٹ میں لے جاتے ہیں، سیاستدانوں نے اپنے اختیارات دیوار کی دوسری سائیڈ پر منتقل کر دیئے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہناتھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت صدیقی والے ریفرنس کو کیسے بھول جائیں، چاہتے ہیں جو بینچ بنے اس میں تمام صوبوں کی اکائیاں شامل ہوں، اگریہ حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، اس کے بعد ڈرافٹ بل کی شکل میں کابینہ کے سامنے لایاجاتاہے، کابینہ منظوری دیتی ہے، اس کے بعد سی سی ایل سی کمیٹی میں چیزوں کو دیکھاجاتاہے، سی سی ایل سی میں تمام اتحادیوں کی نمائندگی ہوتی ہے، ہم شق وار دیکھتےتھے، پھر اس کےبعد سامنےلاتےتھے، پھرکابینہ کہتی ہے پارلیمنٹ میں لایاجائے، ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا، ابھی یہ سی سی ایل سی میں ڈسکس نہیں ہوا، کچھ عرصے سے بل پر مشاورت تھی، پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے کمیٹیاں بنائیں، پھر ہماری مشاورت ایم کیوایم،آئی پی پی اور ق لیگ سے ہوئی، بلوچستان عوامی پارٹی،اعجازالحق،اےاین پی سے بھی بات ہوئی، عبدالمالک بلوچ،مولانافضل الرحمان، محمود اچکزئی سے بھی رابطے ہوئے۔
ان کا کہناتھا کہ حکومت سازی کے بعد اولین فرصت میں چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کے حصے پر کام کرنے کا طے ہوا، 1973سے2009تک آئین کے ساتھ جو کھلواڑ ہوئے اسے درست کرنے کیلئے 18ویں ترمیم پاس کی گئی، 18ویں ترمیم کی وجہ سے پاکستان آج تک جڑا ہوا ہے،اعتزازاحسن سے پوچھاجائےوہ کونسی طاقت تھی جس نے کہاآئینی عدالت نہیں بنے گی؟، ہم اپنی مخالفتوں اور وقت کی وجہ سے داڑھیاں کھینچتے رہتےہیں، 25کروڑ عوام نے آپ کو سمت طے کرنے کا اختیار دیا ہے۔