وفاقی حکومت کی جانب سے ایک آئینی ترمیمی پیکیج منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ میں پیش کیا جا رہا ہے-اس حوالےسے قطعہ نظر آنے والے آئینی پیکیج کی منظوری کے، چند حقائق جاننا ضروری ہے
یہ مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج اس وقت زیر بحث ہے- اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس آئینی ترمیمی پیکیج کی اہمیت کیا ہے ۔۔؟ اس کے کچھ چیدہ چیدہ نکات جو سامنے آئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کو بلاوجہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے جبکہ یہ عوامی مفاد اور ایک طرح سے اعلیٰ عدلیہ کے مفاد میں بھی ہے مگر کچھ مفاد پرست عناصر اس حوالے سے منفی پروپیگینڈا کرکے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے اس آئینی پیکیج کے اصل حقائق کا جاننا بھی ضروری ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ میں 60 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات عام قانونی چارہ جوئی کے ہیں جو برسوں سے زیر التواء ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کی ساری توجہ صرف اور صرف سیاسی کیسز پرمرکوز ہے۔ اس وقت ورلڈ جسٹس پروجیکٹ WJPکے مطابق پاکستان روال آف لاء انڈیکس میں 130 ویں پوزیشن پر ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ آئینی ترمیمی پیکیج اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کا عام شہری جس کے مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں کی اپیلوں کو سالوں سال نہیں سنا جاتا، چاہے یہ کیس سول ہوں یا کرمنل۔ متعدد کرمنل کیسز میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اکثر افراد کا جیل کے اندر انتقال ہوجاتا ہے مگر بدقسمتی سے ان کی اپیلیں سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوتی ہیں۔ ماضی قریب میں بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سپریم کورٹ میں کسی کیس کی اپیل پر سماعت شروع ہوئی، سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ اس کا تو کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ حال ہی میں، ایک فیصلہ 9 سال کے بعد سپریم کورٹ نے کیا، سپریم کورٹ نے خود کہا ہے کہ اس شخص کو 25 سال تک ڈیتھ سیل میں رکھا گیا تھا۔
قانونی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کیس زیر سماعت ہوا تو معلوم ہوا کہ جس کا یہ کیس ہے وہ تو اپنی سزا پوری کرکے بلکہ اپنی عمر قید کی سزا کاٹ چکا ہے اس طرح ایسی اپیلیں غیر موثر ہو جاتی ہیں - یہ دیکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت ایسے کیسز میں گزرتا ہے جن کا عام مدعیان پر براہ راست کوئی اثر نہیں ہوتا، جنہیں اپنے مقدمات کے فیصلے کے لیے سالوں اور دہائیوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
انہی نکات کو دیکھتے ہوئے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظام عدل میں ترامیم لانا وقت کی اہم ضرورت ہے- قانون کی آسان فراہمی کے لیے آئینی عدالت علیحدہ بنائی جائے تاکہ جو آئین و قانون سے جڑے معاملات یا آئین و قانون کی تشریح ہے اس کیلئے علیحدہ سے بینچ اورکورٹ موجود ہو جو اسے خصوصی طورپر دیکھے تاکہ باقی جوعام عوام کے قانونی معاملات ہیں وہ اس کی زد میں نہ آئیں تاکہ عوام کا ادارے پر اعتماد بڑھے- یوں آئینی عدالت صرف آئینی معاملات ہی نمٹائے گی جبکہ سپریم کورٹ ملک کے 250 ملین لوگوں کو انصاف فراہم کرتی رہے گی۔ سپریم کورٹ کو عام مدعیان کی تمام زیر التواء اپیلوں کا دو سال میں فیصلہ کرنا ہوگا اور تمام نئی اپیلوں کا فیصلہ ایک سال میں کرنا ہوگا
قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس آئینی ترمیمی پیکیج کے تحت پانچ سینئر ججز کا پینل بنایا جائے گا جس میں سے کسی ایک کوچیف جسٹس بنایا جائے یہ اس لحاظ سے ضروری ہے تاکہ میرٹ پر سب سے اہل جج کو چیف جسٹس بنایا جائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے اسی طرح ججز کی جو تعداد ہے اس کو بڑھانے اور کیسز کا بیک لاگ دور کرنے کیلئے بھی یہ آئینی ترمیم وقت کی ضرورت ہے۔ 23 ججز کرنے سے یہ ہوگا کہ اس سے جو قانونی معاملات رکے ہوئے ہیں وہ حل ہوسکیں گے ان کی اپیلوں اور ان کے کیسز کی سماعت ہوسکے گی۔ اس طرح ایسے کیسز اور ایسی اپیلیں جو ایک عرصہ سے زیر التوا ہیں ان کی رفتار بڑھائی جا سکے
اس ترمیم میں ایک اہم بات ججز کی تقرری کا معاملہ بھی ہے اس سے قبل یہ تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا اس کی سفارشات کو دیکھنا تھا پارلیمانی کمیشن نے، لیکن پارلیمانی کمیشن کو سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس چودھری افتخار کے فیصلے جسے ایک بڑے بینچ نے کرنا تھا نے غیر موثر کرکے رکھ دیا اور اب صرف ایک ایسا پارلیمانی کمیشن رہ گیا جو موثر نہیں ہے اور نہ ہی جوڈیشل کمیشن پر کسی طرح اثر انداز ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے ایک شفافیت لائی جائے، آئے دن دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے ججز صاحبان کا integrity ایشو ہوتا ہے ان کی consistency کا ایشو ہوتا ہے حتیٰ کہ اب تو ان کی ڈگریز تک کے ایشوز سامنے آرہے ہیں۔ ان کے مالی مفادات کے ایشوز سامنے آرہے ہیں۔ لہٰذا باریک بینی کے ساتھ سکروٹنی کی ضرورت ہے شفافیت کی ضرورت ہے اور ایک طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے جو خوش آئند ہے۔
قانونی ماہرین نے کہا کہ آئینی ترمیم یا آئینی پیکیج میں ججز کی روٹیشن کے نکات بھی ہے - اگر اسلام آباد کے ججز بلوچستان یا بلوچستان کے ججز اسلام آباد آئینگے ، کراچی کے ججز اسلام آباد آئینگے یا کراچی کے راولپنڈی میں آئینگے تو اس سے صوبائی ہم آہنگی بھی بڑھے گی ۔ ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا چھوٹی ہائی کورٹس کے ججز بڑی ہائیکورٹس میں جا کر زیادہ سیکھیں گے اسی طرح بڑی ہائیکورٹس کے ججز چھوٹی ہائیکورٹس میں جا کر مزید سیکھنے کا ماحول پیدا کرسکیں گے۔ بلوچستان کی مثال لے لیں- جو قابل اور سینیئر وکلاء تھے ایک دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے ۔ تو وکلا سے ہی ججز لیے جاتے ہیں
اگر دس ججز لینے ہیں تو دو سیشن ججز ہونگے باقی وکلا سے ہی لئے جائینگے اس طرح جو باہر سے ججز جائینگے اس سے وہاں کے ججز کی صلاحیتیں بھی بہتر ہونگی اس کے ساتھ وہاں کے وکلا کی بھی صلاحیتیں نکھریں گی وہ بھی ان سے کچھ سیکھ پائیں گے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی طرح آئینی پیکیج میں جو بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک اچھی بات ہے کیونکہ بلوچستان کے حوالے سے یہ بیانیہ سامنے اتا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے عوام محرومی کا شکار ہیں لیکن اب حالات بتدریج بہتر ہوتے جا رہے ہیں وہاں اب گوادر کے حوالے سے بڑی تبدیلی آنے والی ہے انشاء اللہ آئندہ چند سالوں میں بلوچستان شاید سارے صوبے سے آگے بڑھ کے زیادہ خوشحال صوبہ بن جائے۔ کیونکہ ہماری وہاں پر گوادر بندرگاہ ہے اور اس کے حوالے سے بڑی تبدیلی آئے گی اور ان کی محرومیاں بھی دور ہونگی
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں سیاسی ماہرین کے مطابق ان آئینی ترامیم کو سیاست کا شکار نہ کیا جائے۔ وہ عناصر جو جوڈیشل سیاست کا حصہ بن رہے ہیں وہ شاید نہیں چاہتے کہ یہ ترامیم کی جائیں
اس رائے سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کے پاکستان کے نظام عدل کو عرصہ دراز سے ریفارمز کی ضرورت رہی ہے یہ آئینی ترامیم ملک کے نظام عدل کو عام پاکستانی کے لیے فعال بنائے گی