الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق گوجرانوالہ ڈویژن میں ضلع گجرات،گوجرانوالہ، سیالکوٹ،نارووال ،منڈی بہائو الدین ،حافظ آباداور نئے ضلع وزیر آباد کو کل ملا کر قومی اسمبلی کی 20 نشستیں دی گئی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کو 44 نشستیں دی گئی ہیں۔2018 کے انتخابات میں گوجرانوالہ ڈویژن کی قومی و صوبائی نشستوں کی تعداد بھی یہی تھی۔
نئی حلقہ بندیوں کے بعد ضلع گوجرانوالہ کی ایک قومی اسمبلی کی نشست ختم کر کے نئے ضلع وزیر آباد کو دی گئی ۔پنجاب کے نئے بننے والے 5 اضلاع میں ایک ضلع وزیر آباد بھی بنا ہے جو کہ اس سے پہلے گوجرانوالہ کی تحصیل تھا ۔ اس ضلع کی کل آبادی 9لاکھ 93 ہزار 412 ہے۔آبادی کے لحاظ سے اس ضلع کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 1.10 اور صوبائی اسمبلی کا کوٹہ 2.31 بنتا ہے اسی بنیاد پر اس ضلع کو قومی اسمبلی کی 1 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں مختص کی گئی ہیں ۔
نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع گجرات، سیالکوٹ، منڈی بہائوالدین اور نارووال میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ ضلع گوجرانوالہ کا سابقہ حلقہ این اے 84 (گوجرانوالہ-6)کو نئی حلقہ بندی میں گوجرانوالہ کم حافظ آباد کردیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ اور حافظ آباد کو آبادی کے تناسب سے کوٹہ پر تقسیم کرنے بعد بالترتیب سیٹوں کا کوٹہ 5.48+1.48 بنتا تھا۔ اسی بنیاد پر گوجرانوالہ کی 5 اور حافظ آباد کو 1 جبکہ ایک نشست دونوں اضلاع کے درمیان تقسیم کر دی گئی ہے۔
صوبائی حلقوں میں ضلع گجرات کی صوبائی نشست میں 1 کے اضافہ کے بعد کل 8 نشستیں ہوگئی ہیں ۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد ضلع گجرات کا صوبائی اسمبلی کا کوٹہ 7.49 بنا تھاجس کی بنیاد پر اسے صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں دی گئی ہیں۔ 2018 کی انتخابات میں ضلع گجرات کی نشستوںکی تعداد7 تھی جبکہ 2023 میں انکی تعداد 8 کردی گئی ہے۔گزشتہ انتخاب میں یہاں سے مسلم لیگ ق نے 3 نشستیں جبکہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے 4 نشستیں اپنے نام کی تھیں ۔
ضلع سیالکوٹ کی ایک نشست پی پی 45 (سیالکوٹ 11)ختم کر دی گئی ہے۔نئی حلقہ بندیوں میں کوٹہ سسٹم کے مطابق ضلع سیالکوٹ کا کوٹہ 10.47 بن رہا تھا اس لیے اسے 10 نشستیں دی گئی ہیں۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے رانا عبدالستار 2018 کے عام انتخابات میں 53 ہزار 760 ووٹ لے کر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ گزشتہ عام انتخابات میں ضلع سیالکوٹ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 11 تھی جبکہ 2023 میں انکی تعداد 10 رہ گئی ہے۔ گزشتہ ا لیکشن میں یہاں سے 8 صوبائی نشستیں مسلم لیگ ن ،1 تحریک انصاف اور 1 مسلم لیگ ق نے جیتی جبکہ ایک آزاد امیدوار لیاقت علی پی پی 39 سے کامیاب ہو کر بعدازاں ن لیگ میں شامل ہوئے۔
ضلع منڈی بہائوالدین کا صوبائی نشست کا کوٹہ 4.26 بنتا ہے جس کی بنیاد پر اس ضلع کے لیے 4 صوبائی اسمبلی کی نشستیں مختص کی گئی ہیں جو کہ پی پی 40 سے شروع ہو کر پی پی 43 تک ہیں ۔
حافظ آباد ضلع کی صوبائی نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی کوٹہ کے لحاظ سے حافظ آباد کی کل پنجاب اسمبلی کی نشستوں کاشیئر 3.07 بنتا تھا جس کی بنیاد پر 3 نشستیں مختص کی گئی ہیں جبکہ ضلع گوجرانوالہ کی دو نشستیں پی پی 63 (گوجرانوالہ 13) اور پی پی 64 (گوجرانوالہ 14) ختم کردی گئی ہیں ، یاد رہے کہ ان حلقوں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار پی پی 63 سے چوہدری محمد اقبال 30 ہزار 460 جبکہ مسلم لیگ ن کے ہی عرفان بشیر پی پی 64 سے 46 ہزار 665ووٹ حاصل کر کے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ 2018 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نےصوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں پر کلین سویپ کیا۔ نئی حلقہ بندیوں کے کوٹہ کے مطابق ضلع گوجرانوالہ کا کوٹہ 11.55 بن رہا تھا اس بنیاد پر اسے 12 نشستیں دی گئی ہیں۔حلقہ این اے 84 میں ان کے زیادہ تر ووٹرز کا تعلق نوشہرہ ورکاں ، کیران والی اور ایمن آباد سے ہے ۔ ان علاقوں کو اب نئے حلقہ این اے 81 میں شامل کر دیاگیاہے ۔
گوجرانولہ ڈویژن میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں سب سے کم آ بادی والا حلقہ این اے 63 گجرات 2 جس کی کل آبادی 7 لاکھ 82 ہزار 935 ہے ۔اس حلقہ میں ضلع گجرات کی ایک مکمل تحصیل جلال پور جٹاں ہے۔ڈویژ ن کا سب سے بڑا حلقہ این اے 77 گوجرانوالہ ،جس کی آبادی 10 لاکھ 98 ہزار 586 ہے ۔ اس حلقے میں شامل علاقوں میں میونسپل کمیٹی قلعہ دیدار سنگھ، میونسپل کمیٹی لدھیوالا وڑائچ، تلونڈی راہوالی قنونگو حلقہ کو چھوڑ کر ابدال اور بٹرانوالی،گوجرانوالہ صدر کے پٹوار سرکلز ،کوہلو والا۔ منڈیالا میر شیرکراں۔کوٹ شیرا، قلعہ میاں سنگھ، دھاریوال، چاہل کوہنہ، چک جید، ہردو ڈھیوری، خابیکی، گوجرانوالہ کینٹ اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے چارج 33،34،35 اور 36ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں کے مطابق نشستوں کے نمبر زمیں ردوبدل کی اہم وجہ یہ ہے کہ آئین کی 25 ویں ترمیم کے مطابق فاٹا کی 7 ایجنسیوں کی 12 نشستوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا،ترمیم کے وقت فاٹا کی آبادی کے لحاظ سے کل 6 نشستیں بنتی تھیں،اسی وجہ سے قومی اسمبلی کی نشستیں 272 سے کم کر کے 266 کر دی گئی ہیں۔2018 کی حلقہ بندیوں میں قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ کے پی کے ضلع چترال این اے 1 سے شروع کیا گیا جبکہ 1970 سے 2013 کے انتخابات میں پشاور سے قومی اسمبلی کے حلقے شروع ہو تے تھے۔2018 میں کے پی کے کی کل 39 اور فاٹا کی 12 نشستوں پر الیکشن ہوئے،اس مرتبہ دونوں کو ملا کر 45 نشستوں پر الیکشن ہوں گے۔ پنجاب کا پہلا حلقہ 2023 میں این اے 55 کے بجائے این اے 49 سے شروع ہوگا۔ پنجاب کی بات کریں تو 2018 کی حلقہ بندیوں کے مطابق صوبائی اسمبلی کا پہلا حلقہ (پی پی 1) اٹک سے شروع کیا گیا ہے جبکہ 1970 تا 2013تک عام انتخابات میں پنجاب کا پہلا حلقہ ضلع راولپنڈی سے شروع ہوتا تھا۔سندھ جو ماضی میں این اے 196 سے شروع ہوتا تھا اس مرتبہ این اے 190 سے شروع ہوگا جبکہ بلوچستان این اے 257 کی بجائے 251 سے شروع ہوگا۔