پاکستان قابل تجدید توانائی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اپنے توانائی کے مسائل کو حل کر سکے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ ملک کو توانائی کے شعبے میں متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے کہ توانائی کی قلت، مہنگی فوسل فیول کی درآمدات، اور ماحولیاتی آلودگی۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے قابل تجدید توانائی کے وسائل پر زور دینا شروع کیا ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی (سولر انرجی) کے منصوبے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً بلوچستان اور سندھ، میں سورج کی روشنی وافر مقدار میں دستیاب ہے، جس سے شمسی توانائی کی پیداوار ممکن ہو رہی ہے۔ قائد اعظم سولر پارک جیسے بڑے منصوبے شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے جنوبی حصے، خاص طور پر سندھ کے علاقے، ونڈ انرجی پیدا کرنے کے لیے موزوں ہیں۔ جھمپیر اور گھارو کے علاقے میں متعدد ونڈ فارمز قائم کیے جا چکے ہیں جو ہوا کی طاقت سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ منصوبے نہ صرف بجلی پیدا کرتے ہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہیں۔
پاکستان ہائیڈرو پاور (آبی بجلی) کے وسائل سے بھی استفادہ کر رہا ہے۔ ملک کے شمالی حصوں میں واقع دریاؤں سے ہائیڈرو پاور پیدا کرنے کے کئی منصوبے چل رہے ہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے بڑے ڈیمز پہلے سے ہی اس مقصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جبکہ مزید چھوٹے اور درمیانے درجے کے منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں۔
پاکستان میں زرعی فضلہ، جانوروں کی فضلہ، اور دیگر حیاتیاتی مواد سے بائیو ماس اور بائیو انرجی پیدا کرنے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ یہ قابل تجدید وسائل نہ صرف توانائی پیدا کرنے میں مددگار ہیں بلکہ دیہی علاقوں کی معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے قابل تجدید توانائی کے فروغ کے لیے مختلف پالیسیز متعارف کرائی ہیں۔ 2019 میں منظور کی گئی "Alternative and Renewable Energy Policy" کے تحت پاکستان نے 2030 تک اپنی بجلی کی پیداوار میں 30% حصہ قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت شمسی، ہوا، اور دیگر قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو خصوصی مراعات اور ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔
پاکستان مختلف بین الاقوامی اداروں اور ممالک کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تاکہ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو فروغ دیا جا سکے۔ اس میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور مختلف ممالک جیسے چین، امریکہ، اور جرمنی کے ساتھ معاہدے شامل ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ترقی کی جا رہی ہے، لیکن کئی چیلنجز بھی ہیں۔ ان میں سرمایہ کاری کی کمی، تکنیکی مہارت کی عدم دستیابی، اور انفراسٹرکچر کی عدم ترقی شامل ہیں۔ تاہم، حکومت اور نجی شعبے کی مشترکہ کوششوں سے یہ چیلنجز مواقع میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف "گرین الائنس" پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک اہم شراکت داری ہے جو قابل تجدید توانائی، ماحولیاتی تحفظ، اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس شراکت داری کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعاون کو بڑھانا اور قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مشترکہ منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔
گرین الائنس کے تحت تعاون کے چند بنیادی شعبے ہیں جیسا کہ دونوں ممالک مشترکہ منصوبوں، تحقیق، اور تکنیکی معاونت کے ذریعے پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں شمسی، ہوا، اور ہائیڈرو پاور جیسے وسائل شامل ہیں۔
گرین الائنس ماحولیاتی تحفظ پر زور دیتا ہے، جس میں جنگلات کی بحالی، پانی کے وسائل کا تحفظ، اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
پاکستان کی پائیدار ترقی کے لیے قابل تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانے، ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے، اور گرین ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔
امریکہ گرین الائنس کے تحت پاکستان کو مالی امداد اور تکنیکی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ اس میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے مالی تعاون، امریکی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری، اور پاکستانی اداروں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی شامل ہے۔
گرین الائنس کے تحت امریکہ اور پاکستان کے تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں مشترکہ تحقیق پر کام کر رہی ہیں۔ اس میں قابل تجدید توانائی کے نئے وسائل کی تلاش، موجودہ وسائل کی بہتری، اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطالعے پر زور دیا جا رہا ہے۔
گرین الائنس نجی شعبے کی شمولیت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ دونوں ممالک کی کمپنیوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔
گرین الائنس کے تحت عوامی آگاہی اور تعلیم کے فروغ پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس میں پاکستان میں ماحولیاتی تعلیم کے پروگرامز کا انعقاد، توانائی کی بچت کے طریقے، اور قابل تجدید توانائی کے فوائد کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
گرین الائنس موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مشترکہ منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ اس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی، کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے منصوبے، اور ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی کام شامل ہیں۔
گرین الائنس کے تحت مستقبل میں مزید منصوبے اور تعاون کے امکانات پر کام کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات اور اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں تاکہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مزید ترقی کی جا سکے۔
گرین الائنس پاکستان اور امریکہ کے درمیان قابل تجدید توانائی کے فروغ، ماحولیاتی تحفظ، اور پائیدار ترقی کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم شراکت داری ہے، جو دونوں ممالک کو مستقبل میں درپیش ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کا فروغ ایک اہم قدم ہے، اور اس شعبے میں مزید ترقی کی توقع ہے۔ مگر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو امریکہ گرین الائنس پاکستان کے تحت قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں مدد گار ہے تو دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی کے دنیا پہ برے ترین اثرات کا زمہ دار بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ جس طرح پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے الزام میں جکڑا ہو اہے اور ہمارے سیاسی حالات استحکام کی جانب انتخابات ہو جانے کے باوجود بھی نہیں آسکے تو کیا اب قابل تجدید توانائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں پاکستان کی کوئی عملہ داد رسی بھی ہوسکے گی یا پھر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ، کا فارمولہ ہی پاکستان پہ لگتا رہے گا