پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹی سکیم کے مالک کو بلیک میل کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کر دیاہے ۔
تفصیلات کے مطابق جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پہلے سابق افسر نہیں ہون گے جن کا فیلڈ کورٹ مارشل کیا جارہاہے ان سے قبل بھی ایسے افسران تھے جنہیں آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر اس کا سامنا کرنا پڑا ۔
7 اکتوبر 2023 کو میجر (ر) عادل فاروق راجہ کو 14 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی، انہیں فوجی اہلکاروں میں بغاوت پر اکسانے کے جرم میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (FGCM) نے مجرم قرار دیا۔
9 اکتوبر 2023 کو کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو12 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (FGCM) نے راجہ کی طرح کے الزامات کے لیے سزا سنائی، جس میں بغاوت پر اکسانا ہے،، حیدر رضا مہدی پر بھی ان کی غیر حاضر رہنے پر مقدمہ چلایا گیا، ان کے ذاتی اثاثے ضبط کر لیے گئے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔
لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (FGCM) نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں میں بغاوت پر اکسانے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
2018 میں، نائیک محمد حسین جنجوعہ کو جاسوسی اور حساس معلومات لیک کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔
2012 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کا جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔
بریگیڈیئر علی خان کا 2012 میں حزب التحریر سے مبینہ وابستگی اور حکومت اور فوج کے خلاف سازش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا تھا، انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
لیفٹیننٹ کرنل (ر) شاہد بشیر کو حزب التحریر سے روابط کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا، ان پر شمسی ایئر بیس کے راز افشا کرنے سمیت جاسوسی کا بھی الزام تھا، انہیں 2011 میں مجرم قرار دیا گیا اورتین سال کی سخت قید اور سروس سے برخاستگی کی سزا سنائی گئی
1995 میں، میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں سات سال قید کی سزا سنائی گئی،، انہیں اس سازش میں فوجی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنے اور اہم شخصیات کو قتل کرنے کے منصوبے شامل تھے۔
1995 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش میں کردار ادا کرنے پر بریگیڈیئر مستنصر اللہ کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
26 ستمبر 1995 کو کرنل عنایت اللہ، کرنل محمد آزاد، میجر جنرل (ر) ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر باللہ سمیت 38 فوجی افسران کوسابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
1980 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے پر ان کا کورٹ مارشل کیا گیا۔
فوج میں کورٹ آف انکوائری کیا ہے اور کورٹ مارشل کیسے ہوتا ہے؟
کورٹ آف انکوائری ایک تفتیشی عمل ہے۔ ’جس طرح سویلین اداروں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جاتی ہے اس طرح فوج میں کورٹ آف انکوائری عمل میں لائی جاتی ہے، فوجی افسر کی جانب سے بدعنوانی یا کرپشن اور اختیارت سے تجاوز کرنے کا معاملہ سامنے آئے تو سیکٹر کمانڈر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیتا ہے۔ کورٹ آف انکوائری کوئی ایکشن لینے کی مجاز نہیں ہے البتہ اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے ایک مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔اس عمل کے پہلے مرحلہ میں سب سے پہلے زیر تفتیش حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلہ میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو آخری مرحلہ میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
یہ امر جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں کسی افسر کو کیا سزا دی جائے گی۔ ان سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات کی واپسی سے لے کر قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔
اس سے قبل بھی سابق انٹیلی جنس سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے مطابق ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق تھا۔