جسٹس اطہر من اللہ نے 9 اپریل کی رات عدالت کھولنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہنی چاہیے۔
نیویارک بار سے خطاب میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میموگیٹ کا معاملہ ایسا نہیں تھا جسے سپریم کورٹ اُٹھاتی ۔ منتخب وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ کہا سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانا غلط تھا کیونکہ صدر زرداری کو آئینی استثنی حاصل تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جج جانتا ہے کہ اُسے اپنے فیصلوں پر کیسے عمل کروانا ہے ۔ ہمیں فیصلوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جاتا ہے ۔ میرے خلاف بدترین پروپیگنڈا کیا گیا ۔ میرے بچوں کی تصویریں اور پرسنل ڈیٹا لیک کیا گیا۔ لیکن چیلنجز جج کے لیے ٹیسٹ ہیں ۔ جج کو تنقید سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نو اپریل کی رات عدالت کھولنے کے فیصلے کا بھی دفاع کیا۔ کہا ایک ٹی وی چینل پر مارشل لا لگانے کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہنی چاہیے
انہوں نے مزید کہا کہ جس دن میں نے عہدہ سنبھالا اُس کے اگلے روز ایک سرکلر جاری کیا، وہ سرکلر ریکارڈ کا حصہ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ ایک آئینی عدالت ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ 24 گھنٹے کھلی رہے۔ اب اُس رات کیا ہوا، میں گھر میں تھا، مجھے بتایا گیا ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں لوگ پٹیشن فائل کرنا چاہتے ہیں، پھر اُنہوں نے مجھے بتایا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون پٹیشن فائل کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسٹاف کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاکر پٹیشن لے آئے، جب میں نے وہ پٹیشن دیکھی تو وہ بالکل مضحکہ خیز تھیں، میں نے حکم جاری نہیں کیا، ایک سیاسی بیانیہ بنا دیا کہ عدالتیں کیوں کھل گئیں، میں آپ کو بتاتا ہوں، اُس وقت ٹی وی پر کیا کہا جا رہا تھا، اُنہوں نے ایسی صورتحال پیدا کر دی جیسے مارشل لاء لگ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہنی چاہیے۔