الیکشن کمیشن کے فارمولے کے مطابق صوبے کی کل آبادی ،صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تقسیم کرنے کے بعد ایک صوبائی سیٹ کا کوٹہ مختص کیا گیا ۔جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے صوبے کی کل آبادی کو قو می اسمبلی کی کل نشستوں پر تقسیم کرنے کے بعد ایک حلقے کا تعین کیا گیا ہے۔ جن پر ابتدائی طور پر حلقہ بندیاں ہوئیں ۔تاہم بعض علاقوں کو دیگر حلقوں میں ضم کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فارمولے کے مطابق خیبرپختونخوا قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 9 لاکھ 7 ہزار 913 نفوس جبکہ صوبائی حلقے کیلئے مختص کیا گیا کوٹہ 3لاکھ 55 ہزار 270 افراد پر مشتمل ہوگا ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے بعد خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 6 جن میں اورکزئی ،ہنگو ، باجوڑ،خیبر،کرم اور جنوبی وزیرستان کی نشستوں میں کمی ،ضلع پشاور اور ضلع ہنگو سے بھی ایک ایک صوبائی نشست کم ہوئی ۔ضلع چترال اور ضلع شانگلہ کی ایک ایک صوبائی نشست میں اضافہ ہوا۔
فہرست کے مطابق صوبہ کے پی میں قومی اسمبلی کی 45 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 115 نشستوں پر حلقہ بندیاں ہوئیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق سیٹوں کے نمبر زمیں ردوبدل کی اہم وجہ یہ ہے کہ آئین کی 25 ویں ترمیم کے مطابق فاٹا کی 7 ایجنسیوں کی 12 نشستوں کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنا ہے،ترمیم کے وقت فاٹا کی آبادی کے لحاظ سے کل 6 نشستیں بنتی تھیں،اسی وجہ سے قومی اسمبلی کی نشست 272 سے کم کر کے 266 کر دی گئی ہیں۔
یاد رہے 2018 میں قبائلی علاقہ جات کو کے پی میں ضم کر دیا گیا تھا۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی و صوبائی نشستوں کے نمبرز تبدیل ہو گئے ہیں عام انتخابات 2018 پر نظر دوڑائی جائے تو قومی اسمبلی کی پہلی نشست این اے 1 چترال تھی جبکہ مجموعی طور پر خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 51 تھی ۔ حلقہ بندیوں کے مطابق این اے 1 چترال آبادی کے لحاظ سے سب سے کم آبادی والا حلقہ ہے جس کی آبادی 5 لاکھ 15 ہزار 935ہے اور اس ضلع کا کوٹہ 0.57 ہے جس کو قومی اسمبلی کی ایک نشست دی گئی۔
الیکشن کمیشن کے فارمولے کے مطابق اس ضلع چترال کی صوبائی نشست میں اضافہ ہوا اس طرح 2023 کے عام انتخابات میں ضلع چترال کی صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہونگی چترال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے اپر چترال پی کے 1 کو الگ اور لوئر چترال پی کے 2 کو الگ صوبائی اسمبلی کا حلقہ مل گیا۔2018کی حلقہ بند یوں کے مطابق یہ ضلع ایک ہی نشست پر مشتمل تھا اور صوبائی اسمبلی کی نشست بھی ایک ہی تھی ۔ آبادی کے لحاظ سے یہ ضلع چترال کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 1اور صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے 1 دونوں حلقے چھوٹے ہیں ۔
نئی حلقہ بندیوں کے بعد مالاکنڈ کو این اے کی ایک نشست اور ضلع باجوڑ کو نشست ملی ہے جبکہ ماضی میں یہ مالاکنڈ پروٹیکٹڈایریا تھا۔ضلع بونیر کی نشست میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہوا۔ 2018 میں اس ضلع کی آبادی 8 لاکھ 97 ہزار 319 جبکہ حالیہ حلقہ بندیوں میں یہ حلقہ 10 لاکھ16 ہزار 869 افراد پر مشتمل ہے۔ ضلع شانگلہ ،بٹگرام اور کوہستان ان اضلاع کی قو می اسمبلی کی نشستوں میں کوئی اضافہ یا کمی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ضلع شانگلہ میں آنے والی ایک اہم تبدیلی یہاں کی ایک صوبائی نشست میں ہونے والا اضافہ ہے۔
ضلع مانسہرہ کی ایک قومی اسمبلی کی نشست اور دوسری مانسہرہ کم تورغر کی نشستیں نئی حلقہ بندیوں کے بعد بھی بر قرار ہیں ۔نئی حلقہ بندیوں کے بعد جن اضلا ع کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہو اان میں ضلع پشاور 5،نوشہرہ 2،کوہاٹ 1، بنوں 1، کرک1،لکی مروت1، ضلع ایبٹ آباد کی 2 ،کوہستان1 ،بٹگرام 1 ،ہری پور کی 1 ،ضلع صوابی کی 2،مردان کی 3،چارسدہ 2 شامل ہے۔ ضلع ہنگو کی قومی اسمبلی کی نشست کو ہنگو کم اورکزئی کر دیا گیا ۔ ضلع پشاور سے ایک صوبائی حلقہ اور ضلع ہنگو کی 2 صوبائی نشستوں میں کمی کر دی گئی ہیں ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سوات کی 3 نشستیں کوٹہ کے مطابق برقرار ہیں۔ سوات کی نشستوں کے نمبرز این اے 2، این اے 3 اور این اے 4 ہیں جبکہ 2018 کے مقابلے میں موجودہ حلقہ بندیوں میں ضلع سوات کی کچھ تحصیلیں نکال کر دوسرے حلقوں میں شامل کر دی گئی ہیں۔ مثلاً این اے 2 سوات کا حلقہ بحرین، خوازہ خیلہ، چار باغ تحصیلوں کے علاوہ ضلع سوات کی بابو زئی تحصیل کے پٹوار سرکل بشبنڑ، منگلوار، سنگوٹہ، سرسردارے، جمبیل، اور کوکرئی پر مشتمل ہے جب کہ 2018 کے عام انتخابات میں مٹہ شمیزئی تحصیل کے پٹوار سرکل آشرے، درمئی، لنڈی گڑھی، سخرہ اور راحت کوٹ پر مشتمل تھا۔
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 3 سوات کی تحصیل بری کوٹ پر مشتمل ہے جبکہ بابو زئی تحصیل کے پٹوار سرکل کوکرئی، سنگوٹہ، سردارے اور بشبنڑ کو نکال دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 5 ضلع اپر دیر پر مشتمل ہے جس کی آبادی 1,083,566 افراد پر مشتمل ہے گزشتہ انتخابات 2018 میں بھی یہ حلقہ این اے 5 ہی تھا۔ این اے 6 اور 7ضلع لوئر دیر کی نشستوں پر مشتمل ہے ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق اس حلقے کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 14 کی کچھ تحصیلیں نکال کر دوسرے حلقے میں شامل کر دی گئی ہیں۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل کی بات کریں تو نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 43 ٹانک کم ڈیرہ اسماعیل خان جبکہ این اے 44 اور 45 دو مکمل قومی اسمبلی کی نشستیں ڈی آئی خان کو دی گئیں ہیں ۔2018 کے عام انتخابات میں ضلع ٹانک کو این اے 37 ایک مکمل نشست دی گئی تھی جبکہ ڈی آئی خان کی 2 نشستیں تھیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں ٹانک کو ایک مکمل صوبائی نشست دی گئی ہے جبکہ ڈی آئی خان میں ایک نشست کے اضافہ کے بعد نشستوں کی تعداد 5 ہوگئی ہے ۔2018 کے انتخابی نتائج پر ایک نظر دوڑایں صوبائی اسمبلی کی4 نشستوں میں سے 2 نشستیں تحریک انصاف ،1 پیپلزرٹی اور 1 آزاد امیدوار احتشام جاوید نے حاصل کی تھی۔
ماضی میں ضلع باجوڑ کے 2 حلقے این اے 40 اور این اے 41 تھے، نئی حلقہ بندیوں کے بعد اب ایک نیا حلقہ این اے 8 ہو گا۔ان دونوں نشستوں سے جیتنے والے امیدوار گل داد خان اور گل ظفر خان پاکستان تحریک انصاف کے بااثر افراد میں شمار ہوتے تھے تا ہم اس ضلع میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ کردیا گیا ہے، خیال رہے کہ عام انتخابات 2018 میں ان کی مجموعی تعداد 3تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق یہ تعداد تین سے بڑھا کر 4 کر دی گئی ہے۔ضلع خیبر کی بھی دوقومی اسمبلی کی نشستوں کو ملا کر ایک نیا حلقہ این اے 27بنا دیا گیاہے۔
تاہم 2018 کے مطابق ضلع خیبر سے این اے 43 اوراین اے 44دو حلقوں پر مشتمل تھا ۔صوبائی نشستوں کی بات کریں تو ضلع خیبر کی 3 نشستیں پی کے 69 سے 71 دی گئیں ہیں ۔کرم سے بھی ایک حلقہ کم کردیا گیا ہے 2018 کی حلقہ بندیوں کے مطابق کرم ایجنسی میں دو قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں جن میں این اے 45 اور این اے46 تھے تاہم نئی حلقہ بندیوں کے بعد اب یہ حلقہ این اے 37 ہے ۔
2018 کے عام انتخابات میں اورکرزئی کا حلقہ این اے47 تھا ۔ موجودہ ابتدائی حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ ختم کردیا گیا ہے اور ہنگو کم اوکزئی پر مشتمل ایک حلقہ این اے 36 بنا دیا گیا ہے۔گزشتہ انتخابات میں جنوبی وزیرستان سےدو قومی اسمبلی کی نشستیں این اے 49 اور این اے 50 تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق اب جنوبی وزیرستان کا نیا حلقہ این اے 42 بنادیاگیا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات میں این اے 51 کا حلقہ فرنٹیئر ریجن پر مشتمل تھا، فرنٹیئر ریجن کے علاقہ جات 2023 کی ابتدئی حلقہ بندیوں کے بعد اپنے متعلقہ اضلاع میں شامل ہو جانے کے باعث اپنے الگ حلقوں سے محروم ہو گئے ہیں اور اب وہ متعلقہ اضلاع کے حصہ کے طور پر ہی انتخابات کا حصہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ فرنٹئر ریجن میں بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، ٹانک، لکی مروت اور پشاور کے علاقہ جات شامل تھے۔
تعاون: عمران اقبال، رامین شکیل، عزت اللہ شنواری، ثنا مسعود، ایم شمریز۔