مختصر ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے انڈونیشیا میں اپنی آن لائن شاپنگ سروس کو معطل کردیا۔
سوشل میڈیا ایپلی کیشن کی جانب یہ اقدام انڈونیشین حکومت کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے نئے ضوابط کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
انڈونیشن حکومت کا کہنا ہے کہ نئے ضوابط کا مقصد مقامی اور آن لائن کاروبار کرنے والے افراد کی حفاظت کرنا ہے۔
گزشتہ ہفتے انڈونیشیا نے ایسے ضوابط کا اعلان کیا تھا جن کی وجہ سے مقبول ویڈیو شیئرنگ سروس کو اپنے فیچرز سے ’ شاپنگ فیچر ‘ ہٹانا پڑا۔
انڈونیشیا کے وزیر تجارت ذوالکفلی حسن کا نئے ضوابط کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب ای کامرس سوشل میڈیا نہیں بن سکتا، اسے الگ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس نئے ضوابط کی تعمیل کے لئے ایک ہفتے کا وقت ہے ورنہ ان کا لائسنس کینسل ہونے کا خطرہ ہوگا۔
یہ اعلان انڈونیشین صدر کے گزشتہ ماہ کے بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ای کامرس کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، یہ بہت اچھی چیز ہے اگر اس کے ضوابط ہیں ورنہ یہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
منگل کو جاری کردہ اپنے بیان میں ٹک ٹاک نے کہا کہ مقامی قوانین اور ضوابط کی تعمیل ہماری اولین ترجیح ہے اور اسی وجہ سے ہم انڈونیشیا میں اپنی آن لائن شاپنگ سروسز کو مزید جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران انڈونیشیا میں آن لائن شاپنگ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ملک کے مرکزی بینک کے مطابق ای کامرس سیلز کی ویلیو میں 44 بلین ڈالر تک کا اضافہ متوقع ہے۔
ٹک ٹاک انڈونیشیا کی آن لائن شاپنگ مارکیٹ میں دو سال قبل اپنے آغاز کے بعد سے اپنے مارکیٹ شیئر میں اضافہ کر رہی تھی جبکہ ملک کے 125 ملین شہری پلیٹ فارم کے صارف ہیں جن میں 6 ملین سیلرز اور مزید لاکھوں افراد بھی شامل ہیں جو سامان کی تشہیر کے لئے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے پیسہ کماتے ہیں۔
رواں سال جون میں ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو شو زی نے انڈونیشیا کے دورے کے دوران اگلے تین سے پانچ سالوں میں خطے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا تھا۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 64 ملین سے زیادہ چھوٹے کاروبار موجود ہیں جو کہ مائیکرو ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے ناموں سے جانے جاتے ہیں اور انڈونیشیا کی معیشت کا تقریباً دو تہائی حصہ ہیں۔
انڈونیشیا میں متعارف کرائے گئے نئے ضوابط ٹک ٹاک کے لئے ایک اور دھچکا ہیں کیونکہ اس سے قبل امریکا ، یورپی یونین اور برطانیہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنے نیٹ ورک سے ایپلی کیشن پر پابندی لگا چکے ہیں۔