سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین بینچ کا حصہ تھے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سادات خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ میں شامل ہیں۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ وہ کیا حالات تھے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو پی ٹی آئی نظریاتی کا ٹکٹ اپلائی کرنا پڑا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی معاملے کو سنی اتحاد کونسل کی نشستوں تک محدود رکھنے کی کوشش، ریمارکس دئیے جو مقدمہ ہمارے سامنے نہیں اس پر بحث کیوں کی جارہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح الیکشن کمیشن نے کی، نتائج لوگ کیوں بھگتیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نے صاحبزادہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کا پوچھا تھا، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ہی دکھائی تھی، غیرمسلم ممبر نہ رکھنے والی شق جے یو آئی کے منشور میں بھی ہے، جے یو آئی کو اس کے باوجود مخصوص نشستیں ملی ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حامد رضا نے وابستگی سنی اتحاد کونسل سے دکھائی تو انہیں اپنی جماعت کا انتخابی نشان کیوں نہ ملا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ حامد رضا کو زبردستی آزاد امیدوار رکھا گیا، صاحبزادہ حامد رضا خود بھی عدالت میں پیش ہوگئے تاہم عدالت نے صاحبزادہ حامد رضا کو خود بولنے سے روک دیا۔
اضافی مخصوص نشستوں پرکامیاب ن لیگ، پی پی امیدواروں کےوکیل مخدوم علی خان روسٹرم پرآگئے، نشستوں پر منتخب ارکان کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔ مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرپرائز کی بات ہے سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی جمع دستاویزات کیمطابق حامد رضا نےاپنی جماعت سے ہی وابستگی دکھائی، اس کا مطلب ہے وہ سنی اتحاد کونسل سے ہی کامیاب ہوئے، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس سب کے بعد حامد رضا کو کیوں اپنا انتخابی نشان نہیں دیا گیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کا کیس بنائیں یا کسی کا تباہ کریں، ہمارے سامنے جو اپیلوں میں چیزیں موجود ہیں اس سے باہر نہیں جائیں گے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کو خود آزاد ڈیکلئیر کرتا رہا، سوال یہ ہے الیکشن کمیشن نے یہ کیسے کیا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلئیریشن جمع کرانےوالے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادارے الیکشن کمیشن نےان لوگوں کو 2 فروری کے روز آزاد ڈیکلئیرکردیا تھا، اس کے بعد ان امیدواروں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی، مسئلہ مگر الیکشن کمیشن کے دو فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ مخدوم صاحب کیا حالات تھے کہ لوگوں کو پی ٹی آئی نظریاتی کا ٹکٹ اپلائی کرنا پڑا؟ مخدوم صاحب یہ تلخ حقائق ہیں اور سب کے علم میں ہیں، جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ جس کیس کے دلائل ہمارے سامنے ہوئے ہیں اسی تک رہیں گے، عدالت کے سامنے مقدمہ سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں، جو مقدمہ ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا اس سے ہمارا لینا دینا نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اعلیٰ ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہےکہ عوام حق رائے دہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے توآئین کےمطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن نےکیسے کہہ دیا کہ امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس تو ایسا اختیار نہیں۔