پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کی خاطر پاک فوج کے جوانوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ان جوانوں کی قربانیوں کی بدولت ہی آج ہم اپنے گھروں میں امن اور تحفظ سے عید منا رہے ہیں۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار غازیان وطن کی داستانوں نے ہمیں قربانی کے حقیقی معنی سے روشناس کروایا۔ غازی لانس نائیک مظہر اقبال نے بھی وطن عزیز کے لیے جان کی بازی لگا کر اپنی بے مثال محبت کا ثبوت دیا۔
غازی لانس نائیک مظہر اقبال نے عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں گزشتہ تین سال سے شمالی وزیرستان میں اپنی ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا جس کے دوران ہمیں اینٹی مائننگ آپریشن کا ٹاسک ملا، اینٹی مائننگ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی بچھائی گئی بارودی سرنگ پر میرا پاؤں آگیا۔
غازی لانس نائیک مظہر اقبال نے کہا کہ بارودی سرنگ کے پھٹنے سے میرا پاؤں زخمی ہو گیا، اسپتال میں منتقل ہونے کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ پاؤں کاٹنا پڑے گا، آپریشن کے بعد جب میں اسپتال میں داخل تھا تو عید آگئی اور عید کے موقع پر پاک فوج نے بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ میرے افسران اور فیملی مجھ سے عید کے موقع پر ملنے آئے اور وطن کے لیے میری محبت اور قربانی کو خوب سراہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک اور قوم کے لیے ہماری جان حاضر ہے کئی عیدیں ڈیوٹی کے تحت بارڈر پر گزارنی پڑتی ہیں، میں دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ارادے بہت مضبوط ہیں اور ہماری طاقت ہمارا ایمان ہے جو کبھی کمزور نہیں ہو سکتا۔
غازی سپاہی محمد رفیق کی داستان
سپاہی محمد رفیق عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں آج بھی اس دن پر فخر محسوس کرتا ہوں جب میں نے اپنے ملک و قوم کی خاطر اپنے جسم کے اعضاء کی قربانی دی، پاک فوج نے میری بہت مدد کی اور مصنوعی ٹانگ لگوائی جس کی بدولت میں اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار رہا ہوں۔
سپاہی محمد رفیق کا کہنا تھا کہ میرے دوست احباب بھی مجھ پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ جسم کا ایک اہم حصہ کھونے کے بعد بھی میں اپنی زندگی اچھے سے گزار رہا ہوں۔
غازی حوالدار شکیل احمد کی داستان
حوالدار شکیل احمد کا کہنا ہے کہ رشکائی کے علاقے میں دشمن کیساتھ ہمارے جوانوں نے بھرپور مقابلہ کیا اور دشمن کی جانب سے گولیاں برسنے کے باوجود بھی سب جوان آگے جانے کی کوشش کررہے تھے اور کوئی واپس نہیں جانا چاہتا تھا، مجھے سات گولیاں لگیں اور میرا سارا بازو چھلنی ہوگیا لیکن جیسے ہی میرے زخم بہتر ہوگئے میں واپس اپنی یونٹ میں اپنے جوانوں کے پاس واپس چلا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عید کے دن ہم نے قربانی کی، دوستوں اور رشتے داروں میں گوشت تقسیم کیا لیکن مجھے آج بھی فوج میں جوانوں کے ساتھ عید یاد آرہی ہے۔
لانس نائیک شاہد عباس کی داستان
لانس نائیک شاہد عباس نے کہا کہ آپریشن کے دوران ہمارا سامنا ایسے دہشتگردوں سے ہوا جو ملک کا امن تباہ کرنے کے درپے تھے لیکن ہماری پلاٹون بہت بہادری سے لڑی، سنائپر کی گولی مجھے کندھے میں لگی لیکن میں پاک فوج کا شکر گزار ہوں کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی میری دیکھ بھال کررہے ہیں اور میرے لیے باعزت روزگار کا انتظام کیا، آج بھی میں اپنے بچوں اور رشتےداروں کے ساتھ پورے جوش و جذبے سے عید مناتا ہوں۔
حوالدار محمد ناصر عباس کی داستان
دوسری جانب لانس حوالدار محمد ناصر عباس نے کہا کہ 2014 میں اپردیر کے حالات بہت سنگین تھے تو میں اپنی یونٹ کیساتھ وہاں پہنچا اور کامیاب آپریشن کیا، آپریشن کے بعد آئی ڈی بم دھماکے سے میں شدید زخمی ہوا، عید تو آج بھی مناتے ہیں لیکن جو مزہ یونٹ میں جوانوں کے ساتھ عید منانے کا تھا وہ اب نہیں، آج بھی میں اپنے ملک کی خاطر ہر قربانی کیلئے تیار ہوں۔