لاہور ہائیکورٹ نے ہتک عزت قانون کے تین سیکشنز پر عملدرآمد عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں ہتک عزت قانون کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امجد رفیق نے ہتک عزت قانون کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے قانون کے سیکشن تین ،5 اور 8 پر عملدرامد عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا۔
عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری ہوگئے۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے درخواستوں کی مخالفت کردی۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ یہ قانون کیسے آزادی اظہار رائے اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے؟ وکیل درخواستگزار نے جواب دیا کہ اس قانون کے مطابق آپ بغیر ثبوت کارروائی کرسکتے ہیں۔ جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ اگر چیف منسٹر کوئی بیان دے تو آپ اسکو عدالت لے آئیں یہ غلط بات ہے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس قانون میں ٹرائل سے قبل ہی ملزم کو 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے، جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق تیز ترین انصاف کی فراہمی کے لیے یہ ہوسکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ چیف جسٹس کوئی نام تجویز کرکے بھیجیں تو ہوسکتا ہے حکومت کہے یہ نام ہمارے فلاں وزیر کو پسند نہیں۔ یہ کوئی سودے بازی یا دکانداری تو نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سے پنجاب میں ہتک عزت کا نیا قانون نافذ ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے پنجاب ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ قانون کے مطابق ٹرائل سے قبل 30 لاکھ روپے تک ہرجانہ ہوسکتا ہے، ٹریبونل ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر بغیر ٹرائل30لاکھ روپے ہرجانے کا عبوری حکم سناسکتا ہے۔ حکومت اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے جتنے ٹریبیونل ضروری سمجھے قائم کر سکتی ہے۔