سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ یہاں 2 مختلف درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں، پشاور ہائیکورٹ میں ہماری حکومت کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے آرڈر پر عمل نہ کرنے کیخلاف درخواست آئی، سپریم کورٹ پہلی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ کا متعلقہ فیصلہ معطل کرچکی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ میں نے کنول شوزب کی جانب سے فریق بننے کی متفرق درخواست دی ہے، چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں،پھر آپ کو بھی سنیں گے۔ فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کا 3 رکنی بینچ کا حکمنامہ پڑھ کر سنا دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیس میں فریق مخالف کون ہیں؟ بینیفشری کون تھے جنہیں فریق بنایا گیا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جن کو اضافی نشستیں دی گئیں وہ بینفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں، قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازع ہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو خیبر پختونخوا کو کے پی کے کہنے سے روک دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خیبر پختونخوا کے لوگ اس نام سے بلائے جانے پر برا مناتے ہیں، دیگر صوبوں کیلئے بھی مخفف استعمال کریں ورنہ ان کا بھی پورا نام لیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ یہ اہم ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو جماعت تسلیم کر لیا؟ اس کامطلب اب وہ 82 لوگ آزاد نہیں بلکہ ایک جماعت سے ہیں؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ جی مائی لارڈ، ان کو جماعت ڈیکلئیر کیا جا چکا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ان 82 ارکان نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ سیاسی جماعت کا سرٹیفکیٹ لگایا تھا؟ وکیل نے کہا کہ امیدواروں نے سرٹیفکیٹ لگایا مگر الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ آزاد ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہے وہ کسی کو خود آزاد ڈیکلیئر کر دے؟ پارٹی کہہ رہی ہو یہ ہمارا امیدوار ہے،امیدوار بھی پارٹی کو اپنا کہے تو الیکشن کمیشن کا پھر کیا اختیار ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بینیفشری جماعتوں میں سے کوئی عدالت میں سنی اتحاد کونسل کی حمایت کرتی ہے؟ تمام دیگر جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہوا آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن میں حصہ لیا؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے کولیگ سے درخواست کروں گا فیصل صدیقی کو اپنے انداز میں دلائل دینے دیں،
چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ آپ نے سیاسی جماعتوں کو فریق کیوں نہیں بنایا تھا؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ میں وہ فریق نہیں تھے اس لیےنہیں بنایا، عدالت تمام جماعتوں کو نوٹس کر کے سن لے۔
کیس میں کب کیا ہوا؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ساری تاریخیں بتا دیں کب کب کیا کیا ہوا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا، پشاورہائی کورٹ نے10جنوری کوالیکشن کمیشن کا حکم نامہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 22 دسمبر 2023 کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اپیل پرسپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا۔
وہ بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہیں
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا دفتر سیل ہوگیا تھا اس لیےکچھ ریکارڈ پیش نہیں کرسکے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ آپ ہم سے اس متعلق آرڈر چاہتے ہیں تو درخواست دیں، وہ بات ایسے نہ کریں جو ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نےانتخابی نشان چھننےکےبعد بھی امیدواروں کو ٹکٹ دیئے؟ کیا اس کےبعد بھی پی ٹی آئی نےمخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست نہیں دی؟ جسٹس اطہر من اللہ استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 17 کے تحت بطور جماعت وجود زیادہ اہم نہیں ہے؟ الیکشن کمیشن کا کیا یہ کردار نہیں کہ تمام جماعتوں کو یکساں دیکھے؟ کیا الیکشن کمیشن کسی جماعت کے خلاف جا سکتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کسی جماعت کو ڈس فرنچائز کر سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی؟ کیا مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں۔
چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں، فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب کہ شکر ہے ابھی آپ نےسوال نہیں پوچھے۔
الیکشن کمیشن عوام کو ڈس فرنچائز نہیں کرسکتا
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جن امیدواروں نے دوسری جماعت میں شمولیت کی کیا وہ پہلے کسی جماعت میں نہیں تھے؟ وہ جماعت جس کے لوگ آپ کے مطابق چھینے گئے اس نے کیا کیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنے کولیگز سے درخواست ہی کروں گا آپ کو اپنے دلائل دینے دیں، ایسے میں بات سمجھ نہیں پارہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف نے بطور جماعت الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کر رہا ہے تو کیا پی ٹی آئی کو نہیں کر سکتا تھا؟ کوئی غلطی بھی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن اسے ٹھیک کرسکتا تھا۔ یہ عوام کا معاملہ ہے الیکشن کمیشن عوام کو ڈس فرنچائز نہیں کر سکتا
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام نے کسی آزاد کو ووٹ نہیں دیا، انھیں ووٹ دیا جنھیں ایک پارٹی سپورٹ کر رہی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔
الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد نے الیکشن نہیں لڑا،پھر پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کونسل کو نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ
دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کا جواب دینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے وکیل کو کہان کہ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں، ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے، میں ایک بار عدالت پیش ہوا تو کہا تھا آپ اگر فیصلہ کر چکے ہوئے تو میں اپنا کیس ختم کرتا ہوں، آپ اپنے دلائل نہیں دیں گے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے؟ میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق ہے، اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔
یہ سیاسی جماعتوں کے حقوق کا معاملہ ہے
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اب سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم کر چکا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل تو ایک جماعت ہے، آپ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر خود کو پارٹی کہہ رہے ہیں آپ نے الیکشن تو نہیں لڑا، جن لوگوں نے اس میں شمولیت اختیار کی وہ کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہر شخص کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ انفرادی شخصیات کے نہیں سیاسی جماعتوں کے حقوق کا معاملہ ہے، یہاں تحفظ ووٹرز کے حقوق کا کیا جانا ہے، ووٹرزکی نمائندگی سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہونی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن کہہ سکتا تھا اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا اور ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم کی، الیکشن کمشین نے سنی اتحاد میں شمولیت کو غلط قرار نہیں دیا، جب 3دن کا وقت گزر گیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہا آپ کو مخصوص نشستیں نہیں ملنی۔ الیکشن کمیشن پہلے شمولیت درست مانتا ہے بعد میں مخصوص نشستیں بھی نہیں دیتا۔
بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہوسکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو ہدایت کی کہ آپ پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بول سکتے، میرے قلم نے آدھے گھنٹے سے کچھ بھی نہیں لکھا، آپ نے آدھے گھنٹے سے مجھے کچھ بھی نہیں لکھوایا، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں پہلے حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، آپ لکھ لیں کہیں قلم سوکھ نہ جائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم حقیقت کو کیوں نہ دیکھیں، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنےاس لیے ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کےجیتےلوگ شامل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ دلائل میں کتنا وقت لگیں گے؟ وکیل نے جواب دیا کہ میں دلائل میں دو سے تین گھنٹے لوں گا اور کچھ دستاویزات پیش کروں گا۔
الیکشن کمیشن نے "بلا" لے کر کہا آؤ بیٹنگ کرو
وکیل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کیلئے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں، ماضی میں قانون آیا کہ مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن لڑنا اور 5فیصد ووٹ لینا لازم ہے تاہم وہ قانون بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا کیا حقیقی پوزیشن یہی ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی ہاں، سارا تنازع یہی ہے، الیکشن کمیشن پھر سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرچکا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نشست حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ الیکشن میں جیتنا ضروری ہے، آزاد امیدواروں کی شمولیت سے بھی نشستیں لی جا سکتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کینیڈا کی سپریم کورٹ میں گیا وہاں وکیل ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرتے ہیں، کینیڈا کی سپریم کورٹ میں بھی ججز سوال پوچھ رہے تھے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وقت مقرر کردیں تو وکلاء اس کے اندر دلائل مکمل کر دیں گے، یہ بات کینیڈا کی سپریم کورٹ سے نہیں اپنی بیگم سے سیکھی ہے۔ بیگم جو وقت مقرر کرتی ہیں میں اس سے آگے نہیں جاتا۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ ہم نے بحث تو کی لیکن سیاسی جماعت کی تعریف نہیں پڑھی، جس نے الیکشن نہیں لڑا وہ اب سیاسی جماعت کیسے کہلائے گی؟ جو جماعت ہی نہیں اس میں کوئی آزاد شامل بھی ہوجائےتو حیثیت کیا ہوگی؟ میرے خیال میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
جسٹس منصور نے کہا کہ آرٹیکل 51 کی تشریح ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کرنے کے تناظر میں کرنی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 17 کے تحت کیا ہم یہ سب نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں دے سکتے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم سے الیکشن کمیشن نے بلا لے کر پھر کہا آؤ بیٹنگ کرو۔
مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جاسکتی ہیں
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 17 کے تحت کیا حق حقدار کو واپس نہیں دیا جا سکتا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان سارے مسائل پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہئے، ہر چیز کیلئے سپریم کورٹ کیوں ہے؟ یہاں سے کوئی خوش اور کوئی ناراض جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ماضی میں یہی کچھ ہو چکا، ذکر ہوا تھا پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین نام کیوں رکھاگیا؟ ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہی عدالتوں کو آئین کی تشریح کرنی چاہئے، آئینی حقوق کے معاملے پر کیسے تشریح ہونی چاہئے یہ سب کو پتہ ہے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی زیرعتاب ہی کیوں رہے، پیپلزپارٹی سے تلوار لی گئی، ن لیگ کے ساتھ بھی یہ ہوچکا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ نشستیں خالی چھوڑ دیں، آپ کو ملیں نہ کسی اور کو، مگر آرٹیکل 51 کے مطابق نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں، یا تو یہ کہیں کہ آرٹیکل 51 کو نظر انداز کر دیں۔ جسٹس منصور نے کہا کہ کیا یہ ضروری ہوگا کہ آرٹیکل 51 کی تشریح کیلئے ووٹرز کا حق بھی مدنظر رکھا جائے؟ اصل حق تو ووٹرز کا ہے، باقی تو سب بعد کی باتیں ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ساری بحث سیاسی جماعتوں کے سیاق و سباق میں ہو رہی ہے، کیا الیکشن کمیشن ووٹرز کے حق کو متاثر کر سکتا ہے؟ غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو دی جاسکتی ہیں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
یہ ایک ہائبرڈ نظام ہے، چیف جسٹس پاکستان
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیے کہ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مکمل جمہوریت کو دیکھنا چاہئے، غیر جماعتی الیکشن بھی ہوتے رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے کون کراتا ہے، سیاسی جماعتیں اس کی مخالف رہی ہیں۔ ممکن ہے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لیکر بھی کوئی پارٹی پارلیمنٹ میں اقلیت میں ہو، ہو سکتا ہے ایک جماعت سو نشستوں پر لڑے اور ہر سیٹ ایک ایک ووٹ سے ہار جائے، ایسی صورت میں وہ جماعت کسی مخصوص نشست کی حقدار نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جماعت پہلے مخصوص نشستوں پر امیدواروں کی فہرست دے تو عوام کے پاس ایک آپشن ہوتا ہے، عوام کو وہ لوگ پسند نہ ہوں تو اس کیخلاف ووٹ دے سکتے ہیں، اگر یہ فہرست پہلے نہیں بعد میں دی جائے تو فائدہ کیا ہوا۔